جنوب مشرقی ایشیا کی حکومتوں نے داخلی بدامنی پیدا ہونے کے اندیشے کے پیش نظر انقلاب اسلامی ایران کے بارے میں محتاط موقف اختیار کیا۔ ایک جانب انہوں نے ایران کے ساتھ اپنے معمول کے سیاسی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے (انقلاب اسلامی ایران کی حمایت کے سلسلے میں ) اپنے مسلمان عوام کی توقعات کسی حد تک پوری کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف دو طرفہ تعلقات کے کنٹرول کے ساتھ اپنے ملک کے مسلمانوں پر اسلامی انقلاب کے سیاسی اثرات کی راہ میں حائل ہوئیں ۔ انقلاب اسلامی ایران کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ کا منفی پروپیگنڈا اور اس انقلاب کی تحریف، انقلاب اسلامی کے خلاف کارگر ہتھیار ثابت ہوئے۔اس کے علاوہ ان ممالک میں پیدا ہونے والی بعض داخلی مشکلات بھی حکومتی تشویش کے بڑھنے کا باعث بن رہی تھیں۔
انڈونیشیا کی حکومت کا نظریہ سیکولر آئیڈیالوجی "Pancasila" ہے اور اس میں ۱) خدائے واحد پر یقین؛ ۲) نیشنل ازم؛ ۳) انسانیت؛ ۴) سماجی انصاف؛ ۵) ڈیموکریسی کے پانچ نکات شامل ہیں ۔ انڈونیشیا کے سول اور فوجی حکام مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی سے کام لیتے ہیں اور ان پر اعتماد نہیں کرتے ہیں ۔ بعض اوقات اس کو ’’اسلامی خوف‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے مذکورہ حکومت ایک عرصے سے ’’ اسلام کو سیاست سے الگ رکھنے‘‘ کی کوشش کرتی رہی ہےاور ’’اسلامی حکومت کے خطرے‘‘ کا ذکر کرتی رہی ہے۔ اس بناپر ماضی میں اس حکومت کی فوجی شخصیات نے واضح طورپر اپنے ملک کے مسلمانوں میں انقلاب اسلامی اور امام خمینی (ره) کی قیادت کے نفوذ کے سلسلے میں اپنی تشویش اظہار کیا ہے اسی لئے شدت پسند مسلمانوں (جن پر شیعہ اور ایران کے حامی کا الزام ہے) کے ساتھ سخت رویہ روا رکھا گیا اور ان پر دہشت گردی ( ہوائی جہاز کے اغوا اور بدھ مت کی عبادت گاہوں میں دھماکوں وغیرہ) کے الزامات لگائے گئے۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات برقرار رہے اور مزید فروغ پا رہے ہیں ۔
ملائشیا کی حکومت نے بھی قوم پرست ہونے اور اپنے ملک کی سیاسی زندگی کیلئے اسلام کی اہمیت کے قائل ہونے کے باوجود شدت پسند اور بنیاد پرست اسلامی تنظیموں کے سر اٹھانے کے بارے میں اپنی تشویش کو چھپایا نہیں ہے۔ اس نے عموماً اپنے ملک کے مسلمان قائدین کی ایران آمد ورفت پر کڑی نگاہ رکھی ہے۔ اس ملک کی حکومتی شخصیات نے بارہا شیعہ شدت پسند نظریات کی ترویج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے (اگست ۱۹۹۴ء) میں ایک مذہبی فرقے ’’الارقم‘‘ کو ایک منحرف گروہ قرار دیا گیا اور اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی تاہم ایسے حالات میں حکومت نے صوبہ ’’کلانتان‘‘ کے امور چلانے کیلئے حزب اسلامی ’’پاس‘‘ کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگرچہ حکومت اس صوبے میں احکام شرعی کے نفاذ کے سلسلے میں ’’پاس‘‘ کے بہت سے قائدین سے متفق نہیں ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود دونوں ممالک کے سرکاری وسفارتی تعلقات ہمیشہ برقرار رہے اور بہت سے بین الاقوامی مسائل کے بارے میں دونوں کا مشترکہ موقف، ان کے باہمی تعلقات میں مزید توسیع کا باعث بنا۔
جنوبی فلپائن کے مورو مسلمانوں کی علیحدگی کا مسئلہ بہت پرانا ہے جو ۱۹۷۰ ءکے عشرے میں اس وقت کی منیل کی حکومت کے خلاف مسلح تحریک پر منتج ہوا اور اس کی بعض اسلامی ممالک (مثلاً لیبیا) نے حمایت کی اور اسی طرح اسلامی کانفرنس تنظیم کی مداخلت کا باعث بنا۔ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی سالوں میں فلپائن میں مقیم ایرانی طلبا کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مورو کے قائدین کا دورۂ ایران، ایران کی جانب سے ان کی باضابطہ حمایت اور فلپائن کی حکومت کو تیل کی سپلائی کی روک تھام کی بناپر فلپائن کی حکومت کو داخلی بدامنی کی تشویش لاحق ہوگئی اور ایران کے اس کے ساتھ سفارتی روابط میں سرد مہری آگئی۔ مارکوس حکومت کی برطرفی کے کئی سال بعد دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے۔ جنوبی فلپائن کے مسلمانوں کا مسئلہ ان میں سے بعض گروپوں کی مسلح بغاوت کے باوجود اسلامی کانفرنس تنظیم کی سرگرم دلچسپی، قرارداد صلح پر دستخط اور خودمختاری کے قیام کے بعد اب مکمل طورپر حل ہونے کے قریب ہے۔
جنوبی تھائی لینڈ کے مسلمان بھی علیحدگی کے جذبات سے عاری نہ تھے اور حکام نے ان کے درمیان بھی شیعہ نظریات کے نفوذ پر تشویش کا اظہار کیا۔ صوبہ ’’پتانی‘‘ میں ۱۹۹۰ء میں بیس ہزار مسلمانوں نے مسجد کروزہ کی دوبارہ تعمیر کیلئے مظاہرہ کیا جو مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو منوانے کی کوششوں کا ایک نمونہ ہے۔ اگرچہ ان مسلمانوں کا اصلی مقصد علیحدگی پسندی سے زیادہ اقتصادی وسماجی محرومیوں کو دور کرنا سمجھا گیا۔ تھائی لینڈ کی حکومت داخلی مسائل کے بارے میں حساسیت کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ معمول اور متوازن تعلقات قائم رکھے۔
لیکن ان حکومتی تعلقات کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں نے انقلاب اسلامی کا ایک اور زاویہ نگاہ سے مشاہدہ کیا جس کے آثار ان کی فکری اور معاشرتی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں ۔