ایرانی شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد پاکستان ایران تعلقات دوریوں بدگمانیوں میں بدلنے لگے کیونکہ یہی سامراج کا مطمع نظر تھا۔
اقتصادی تعاون تنظیم نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو پورے خطے کی ترقی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف بھرپور حمایت کا اعلان کیا، بلکہ رکن ممالک نے منصوبے کا حصہ بننے میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔ ایکو کے رکن ممالک نے آئندہ تین سے پانچ سال کے دوران باہمی تجارت کو دگنا کرنے پر اتفاق کیا جبکہ مواصلاتی روابط کو فروغ دینے، توانائی، سائبر ٹیکنالوجی، ویزا پالیسی، کسٹمز سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے، دہشت گردی، انتہا پسندی اور منشیات کی اسمگلنگ سمیت مختلف چیلنجز سے نمٹنے کےلئے ویژن 2025ء کی بھی منظوری دی۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کا کامیاب انعقاد اور باہمی تعاون یقینا باعث اطمینان ہے لیکن کچھ حقائق تلخ بھی ہیں جو بھرپور توجہ کے متقاضی ہیں۔
ستمبر 2016ء میں بھارت کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملے کے بعد مودی نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی دھمکی دی تھی اور اسرائیل سمیت پاکستان دشمن ممالک کے ساتھ مل کر نومبر میں اسلام آباد میں منعقدہ سارک سربراہ اجلاس کو سبوتاژ کرکے اپنی فتح کا بگل بجایا تھا، پاکستان نے صرف چار ماہ بعد اقتصادی تعاون تنظیم (ایکو) کے کامیاب انعقاد سے بھارتی نیتا کو جواب دیا ہے۔
بھارت نے سارک اجلاس کی طرح ایک بار پھر افغانستان کو ہمنوا بنانے کی کوشش کی، جس کے باعث افغان صدر نے ایکو سمٹ میں خود شرکت کرنے کی بجائے پاکستان میں تعینات افغان سفیر کو بھیجنے پر اکتفا کیا، تاہم ایران، ترکی، آزربائیجان، تاجکستان اور ترکمانستان کے صدور، قازقستان اور کرغستان کے وزرائے اعظم، ازبکستان کے نائب وزیر اعظم، چین اور اقوام متحدہ کے حکام نے بطور مبصر شرکت کرکے پاکستان کی سفارتی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا کی آبادی میں ایکو ممالک کا حصہ 16 فیصد ہے لیکن دنیا کی مجموعی تجارت میں اس کا حصہ صرف 2 فیصد ہے۔ ایران، ترکی اور پاکستان کی کوششوں سے 1985ء میں قائم ہونے اور 1992 میں مزید سات وسط ایشیائی ریاستوں کی نمائندگی کرنے والی اقتصادی تعاون تنظیم گزشتہ 25 سال میں بھی اتنی مؤثر اور فعال نہیں ہو سکی کہ دنیا کی تجارت میں قابل ذکر شراکت داری کو یقینی بنا سکتی۔
اقتصادی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس سے قبل گزشتہ پچیس سال میں بارہ نشستیں ہوئیں اور ہر نشست میں باہمی روابط کو بڑھانے سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے وعدے اور معاہدے کئے جاتے رہے، لیکن ان پر عمل درآمد کا اندازہ بیان کردہ تجارتی تعلقات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ اقتصادی تعاون تنظیم کو حقیقی معنوں میں موثر اور فعال بنانے کےلئے اعلان اسلام آباد پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جائیں۔
یورپی یونین کی طرز پر ویزوں کے اجراء کا کوئی یکساں میکانزم قائم کیا جائے اور تب تک ایک دوسرے ممالک کے شہریوں کےلئے امیگریشن قوانین کو نرم کرکے ویزوں کی فراہمی کو آسان بنایا جائے۔ ایکو کے رکن ممالک کے درمیان دو طرفہ آزاد تجارت کے معاہدے قائم کئے جائیں۔ طلبا، تاجروں، میڈیا ارکان اور ثقافتی وفود کے تبادلے یقینی بنائے جائیں، سیاحت اور ثقافت کے فروغ کےلئے مشترکہ فوڈ فیسٹیول منعقد کئے جائیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مشترکہ تحقیقاتی گرانٹس کا اجرا، رکن ممالک کے درمیان باہمی اختلافات اور تنازعات کو حل کیا جائے۔
ماضی میں ایک تنظیم آر سی ڈی بھی رہی ہے۔ جس کے رکن پاکستان ایران اور ترکی تھے۔ اس کے ذریعے ان تینوں ملکوں میں کچھ کام بھی ہوا، لیکن جب سرد جنگ گرم جنگ میں بدلی تو اس کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہو گیا۔ ایرانی شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد پاکستان ایران تعلقات دوریوں بدگمانیوں میں بدلنے لگے کیونکہ یہی سامراج کا مطمع نظر تھا۔ دو برادر اسلامی ملکوں کی قربت خطے میں سامراجی مفادات کےلئے نقصان دہ تھی۔ آگ و خون کا جو کھیل اس خطے میں تیس سال سے زائد عرصہ کھیلا گیا اس میں پاکستان پر شدید دباؤ رہا کہ وہ کھل کر ایران کے خلاف سامراجی جنگ کا حصہ بنے، لیکن پاکستان نے اس سے ہر ممکن گریز کیا بلکہ در پردہ اس کی مشکل وقتوں میں مدد کی۔ جیسا کہ اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ ہم ایکو ممالک کو ہائی ویز کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کر دیں گے، کیونکہ رابطوں کو فروغ دینے سے ہی ایشیا میں ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، 21ویں صدی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت کا دور ہے۔ اقتصادی سرگرمیاں مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔
ماخذ: اسلام ٹائمز