اسلام قدر ومنزلت پر مبنی نظام ہے، اس نظام میں سیاسی معاشرے کی خصوصیات پیش کئے گئے ہیں دینی راہنماؤں نے جامع نظام کی بنیاد پر ایک آئیڈیل معاشرے کے قیام کیلئے عملی اصول وروش پیش کئے ہیں۔ اسلام، روش واسلوب کو مورد استعمال قرار دینے میں دوسرے مکاتب فکر سے موازنہ کرتے ہوئے خاص معیار وپیمانہ کا حامل ہے اور آج دنیا میں متداول ورائج طریقے سے متفاوت ہے، اسلام کا ہدف اخلاق کی حاکمیت واسلامی دائرے میں حرکت کرنا ہے۔ اسلام، ہدف کی دستیابی کیلئے ہر وسیلہ کا استفادہ جائز نہیں سمجھتا ہے۔ یہ ان طریقوں پر حاکم کلی خطوط ہیں۔
قرآن کریم نے اسلام کے آئیڈیل نظام کے پہلوؤں کو واضح کردیا ہے مبارزت ومجاہدت سے مملو تاریخ تشیع، انقلاب اسلامی بر پا کرنے میں ایرانی معاشرے کیلئے الہام بخش تھی۔ اسلامی تاریخ وتحول سے صحیح ودقیق درک کا پیش کیا جانا اسلامی معاشرے کی فکر کی تبدیلی کا سبب ہے۔ بعض محققین معتقد ہیں کہ ایران میں انقلاب کا اصل محرک، اسلامی آئیڈیالوجی اور روح فکر کا حاکم ہونا ہے۔ اجتماعی میدان میں انقلاب سے قبل باطن میں فردی انقلاب بر پا ہوتا ہے۔
قرآن مجید فرماتا ہے: عوام اور معاشرے کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتی جب تک وہ خود اپنی حالت تبدیل نہ کریں۔فکری انقلاب کیلئے معاشرے کی روحی صورتحال اور آئیڈیالوجی میں تبدیلی یہ فکری کے تحول کیلئے الٰہی رہبروں وپیغمبروں کا اہم پیغام ہے۔
اسلام کا اعتقادی نظام، اجتماعی میدان میں انسان کے موقف کے اختیار کئے جانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جس قدر معاشرے کا باور واعتقاد زیادہ منطقی استحکام کا حامل ہوگا مشکلات ومصائب کے مقابل فعال تر کردار ادا کرے گا، توحید کی حقیقی روح فراعین وطواغیت کی نفی کا سبب ہے۔ شرک وظلم سے مبارزت ومقابلہ میں پائیداری ومقاومت کی قدرت عطا کرتی ہے، ایک غیر ملکی مصنف معتقد ہے کہ تشیع عقائد میں انقلابی وجہادی توانائی عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں، جو قوی ومقتدرترین ظالموں کے مقابل مقاومت ونافرمانی کی توجیہہ کرتے ہیں۔
حیات اخروی پر اعتقاد شہادت پسندی مقاصد اور جہاد، الہام بخش ہے جس کا ہدف فوز عظیم یا کامرانی کا حصول یا دنیا میں احکام الٰہی کے اجراء میں سعی وکوشش ہے۔
نبوت وامامت پر اعتقاد، دینی قائدین کی رفتار وگفتار کو عوام کی راہنمائی واسوہ کیلئے معیار سیرت قرار دینا ہے۔ تشیع کی پر افتخار تاریخ ائمہ اطہار (ع) کی جہاد ومبارزت سے مملو زندگی، تاریخ میں ان کے پیرووں کیلئے عظیم درس ہے، لہذا عصر غیبت میں انقلابی تبدیلی، قیام عاشورا وائمہ اطہار (ع) کے جہادی وسیاسی موقف سے اتصال رکھتی ہے۔
اسلام کا قانون، معاشرے میں الٰہی حاکمیت اور حکومت کی تشکیل کی ضرورت کو بیان کرتا ہے۔ مرجعیت اور اجتہاد اور اس کے ابواب جیسے جہاد، امر بہ معروف نہی از منکر غیر دینی حکام کے مقابل انقلابی روش اختیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اسلام کے تربیتی نظام میں بھی طاغوتی طاقتوں سے مقابلہ کیلئے اہم عناصر موجود ہیں۔ استاد شہید مطہری ؒ معتقد ہیں کہ دین مخالف طاقتوں کے مقابل مقاومت ونافرمانی، طرد وانکار، عدم سازباز وتمکین اسلام کے تربیتی نظام کی دین ہے۔( پیرامون انقلاب اسلامی، شہید مطہری، ص ۵۵)
اسلام کے آئیڈیل نعرے وشعار جیسے آزادی، برابری، عدالت پسندی اسلام کے تربیتی نظام کے اہم معیار ونمونے ہیں جو معین مقاصد کے تحت معاشرے کے افراد کو اسارت وغلامی کی زنجیریں توڑنے کی دعوت دیتے ہیں۔
ایک کلی وجامع نگاہ ڈالتے ہوئے دین کی آئیڈیالوجی کی اہم کارکردگی معاشرے کو موجود صورتحال سے نجات حاصل کرنے کیلئے دعوت دینا اور مطلوب وآئیڈیل مستقبل کیلئے اسوہ واسلوب کو پیش کرنا ہے تاکہ معاشرہ موجود صورتحال سے نجات حاصل کرکے مطلوب صورتحال کو حاصل کرسکے۔