حضرت امام امت (ره) اسلامی جمہوریہ کی تشکیل ’’ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ‘‘ کو جو کہ درحقیقت تھیوکریسی اور ڈیموکریسی کا آمیزہ ہے جس کا واضح مفہوم عوام کی کارکردگی کا دینی ہونا اور دینی تحریک کا عوامی ہونا ہے، اﷲ تعالیٰ کی امانت، شہیدوں کے مقدس لہو کا ثمرہ اور خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں کی تکبیروں کا حاصل جانتے ہیں اور اس کا تحفظ جو کہ تمام واجبات سے زیادہ اہم ہے، سب کا فرض قرار دیتے ہیں ۔
۵ جون ۱۹۶۳ ء کی تحریک کو پوری شدت کے ساتھ اور بہیمانہ قتل عام کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی مگر اس کے با وجود یہ امام خمینی (ره) کی تحریک کے فروغ اور مسلمان ملت کی دو چنداں روحانی اور دلیرانہ آمادگی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں مسلمان ملت کو بہت عظیم فتح نصیب ہوئی جس کا اعتراف ساری دنیا نے کیا۔ علاقے میں سب سے بڑے جہنمی سامراجی نظام پر یہ ایک ایسی ملت کی فتح تھی جس کے پاس نہ فوج تھی نہ دشمن جتنا جنگی ساز وسامان اور نہ ہی کسی بلاک کی حمایت اسے حاصل تھی۔ حضرت امام خمینی (ره) نے حکمرانی اور ذات حق تعالیٰ کی کلیدی حیثیت کے درمیان جو ربط ملایا ایک طرف سے اس کا پیش خیمہ ایک خدائی حکمران کی اعلیٰ مثال کے طورپر آپ کی لاثانی شخصیت تھی دوسری جانب عظیم اسلامی خدائی انقلاب کی خاص ماہیت اور اس کی حقیقت طلبی اس کا سرچشمہ تھی جس کا پر ثمر حاصل یہ تھا کہ اس نے سامراجیوں کے تمام اندازوں کو نقش برآب اور ان کے پٹھو حکمرانوں کو لزرہ براندام کردیا۔
درحقیقت حضرت امام خمینی (ره) نے اسلامی نظام کو ایک غنی اور انسان ساز ثقافت کے سانچے میں ڈھال دیا جس نے اعتقادی، اخلاقی اور عملی حوالے سے قوموں کی ہدایت کی اور نسلوں کو معرفت حاصل کرنے اور ناانصافی کی نفی کرنے کی جانب بڑھایا۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں فتنہ، غوغا، غارت اور فریب کی مذمت کی گئی جس کی وجہ سے وقت کے شیطانوں کے غلبے کا راستہ مسدود ہو کر رہ گیا اور اس نظام نے تمام عالمی لیٹروں اور ان کے پٹھووں کو تاریخ کے مظلوموں کے مقدس ارادے کے سامنے ذلیل وخوار کردیا۔ یہ ایسا نظام ہے جس کی تأسیس کے ذریعے بلند مرتبہ اسلام کہ جو {یعلوا ولا یعلیٰ علیہ} کا مصداق ہے، کی اصلی اور متروک شدہ طاقت کے ظہور کی نوید کئی صدیوں کے بعد انسانی نسلوں کو سنائی گئی۔ حضرت امام خمینی (ره) نے اسلامی احکام اور حکومتی معیاروں کی باہمی ہم آہنگی، اسلامی جمہوریہ کے نام سے دیانت کی بنیاد پر حکومت کی تشکیل کی ضرورت اور اس حکومت کے مقاصد کے حوالے سے فرمایا: ’’اسلامی احکام کا تعلّق چاہے اقتصاد سے ہو یا سیاست اور قانون کے ساتھ وہ قیامت تک باقی اور لازم الاجراء ہیں ۔۔۔ احکام کی یہ بقاء اور دوام ایک ایسے نظام کے طالب ہیں جو ان احکام کے اعتبار اور سیاست کا ضامن ہو، ان کے اجراء کا کفیل ہو کیونکہ خدائی احکام کا نفاذ اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر ناممکن ہے‘‘۔
آپ نتیجے کے طورپر صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں : ’’پس حکومت قائم کرنا اور اسلامی حکومت تشکیل دینا عادل فقہاء پر واجب کفائی ہے‘‘۔(شئون واختیارات ولی فقیہ، ص ۲۰)