اسلام کے ظہور اور پیغمبر اکرم (ص) کی جانب سے خدا کا پیغام پہنچانے کے بعد بہت سے دولتمندوں اور صاحبان طاقت کے مفادات خطرے میں پڑ گئے۔ جو لوگ ظہور اسلام سے قبل دینداری اور بت پرستی کے نام پر لوگوں پر حکومت کرتے تھے اور ان کو جاہل رکھ کر انہیں اپنی عبادت کی جانب بلاتے تھے اسلام کے آنے کے بعد ان کی سرداری خطرے میں پڑ گئی جس کے باعث انہوں نے دین کی نابودی کی بے پناہ کوشش کی۔ انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا۔ البتہ فقط ظاہری طور پر مسلمان ہوئے تھے تہ دل سے ایمان نہیں لائے تھے۔ حقیقی طور پر ایمان نہیں لائے تھے بلکہ مجبوری کی بنا پر مسلمان ہوئے تھے۔
بنی امیہ فقط اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے ایمان لائے تھے۔ یہ لوگ اسلام کو ایک دین نہیں اپنے مفادات کے حصول کا ذریعہ جانتے تھے۔ ابوسفیان جو کہ اسلام کے شدید ترین دشمن تھے اور انہوں نے آخری امکانی حد تک اسلام کا مقابلہ کیا اور آخر کار مسلمان ہوگئے تھے نے عثمان کہ جو امویوں میں سے تھے کے خلیفہ بننے کے بعد ایسی بات کہی کہ جو اسلام کے ساتھ ان کی گہری دشمنی اور دین کے غلط ادراک کی نشاندہی کرتی ہے۔
امام خمینیؒ بنی امیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ’’یہ لوگ اس کے درپے تھے کہ بنی ہاشم نہ رہیں ۔۔۔۔ یہ لوگ اسلام کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے۔ یہ ایک عرب بادشاہت قائم کرنے کے خواہاں تھے‘‘۔ (صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۳، ص ۳۳۰)
بنی امیہ کے خلفاء نے اپنی ستر سالہ مطلق العنان استبدادی حکومت میں وہ کام کئے جن کی بنا پراسلام کا صرف نام ہی باقی رہ گیا اور دینی اسلامی حکومت جو پیغمبر اکرم ؐ کے زمانے سے تقویٰ و عدل پر استوار تھی سو فیصد عربی ظالم بادشاہت میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔
خاندان بنی عباس {الرضا من آل محمد} کے نعرے اور رسول خدا ؐ کی عترت سے قرابتداری کے دعوے کے ساتھ برسر اقتدار آیا۔ یہ خاندان اپنے پیشرووں سے پیچھے نہ رہا، انہوں نے بھی اسلام کے نام پر دین کو نقصان پہنچایا۔ تاریخ نے ان دونوں خاندانوں کے بے انتہا اور شرمناک مظالم کو جوان خاندانوں نے اپنے اپنے عہد میں کئے، اپنے سینے میں محفوظ کر لیا ہے۔
امام خمینیؒ رقمطراز ہیں :’’پیغمبر اکرم ؐ کے وصال کے بعد بنی امیہ کے دین دشمن افراد نے حکومت کی بنیاد کو تبدیل کردیا۔ ان کی زیادہ تر حکومتی پالیسیاں اسلام کے احکام کے منافی تھیں ۔ حکومت کا نظام مکمل طور پر بدل گیا اور یہ ملوکیت میں تبدیل ہوکر رہ گئی‘‘۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ سیاست سے دین کی علیحدگی کے نظرئیے کی بنیاد بنی امیہ کے زمانے میں اور انہی کے ہاتھوں رکھی گئی اور بنی عباس کے زمانے میں اس نظرئیے کی تقویت ہوئی اور اس نے نشو و نما پائی۔ حضرت امام خمینیؒ بھی دین اور سیاست کی جدائی کے نظرئیے کو نیا مسئلہ نہیں جانتے ہیں بلکہ آپ کے نزدیک اس مسئلے کی بنیاد بنی امیہ کے زمانے میں رکھی گئی اور بنی عباس کے زمانے میں اس کو استحکام ملا۔
دین کے نام پر قائم ہونے والی اسلامی حکومتوں کے سرسری جائزے سے ہی اس بات کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ اپنی سیاست اور اپنی پالیسیوں کا رخ اسلام کی جانب موڑنا حکام کی مجبوری تھا اور یہ حکام ’’سیاست کو دینی‘‘ بنانے کی بجائے ’’دین کو سیاسی‘‘ بنانے کے درپے رہتے تھے۔ ان کے نزدیک دین حکومت کرنے اور امور کی باگ اپنے ہاتھ میں لینے کا ایک وسیلہ اور ذریعہ تھا۔ انہوں نے دین کو اپنے سامراجی مقاصد اور جاہ و مقام کے حصول کی خواہش کے ذریعے کی حیثیت دے رکھی تھی۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا البتہ اسی میں نشیب و فراز آتے رہے۔ ان دونوں خاندانوں کی حکومتوں کے بعد بر سر اقتدار آنے والی حکومتیں زیادہ تر دین کو سیاسی رنگ دیتی رہیں نہ کہ سیاست کو دینی رنگ اور انہوں نے دین کے سیاست سے جدائی کے نظرئیے کے معرض ظہور میں آنے کی تمام راہیں کھول دیں ۔
دوسرے علل و اسباب، منجملہ سامراجی پالیسیوں کے اور بقول حضرت امام خمینیؒ ’’اسلامی ممالک میں اغیار کے اثر رسوخ اور دنیا کے ڈرامہ بازوں کی جانب سے اس مسئلے کو ہو دینا ‘‘( صحیفہ امام، ج۱۶، ص ۴۱۸) اسی سلسلے میں غیر موثر نہیں رہا ہے۔