معاویہ اور یزید سے اسلام کو یہ خطرہ نہیں تھا کہ انہوں نے خلافت کو غصب کیا تھا۔ یہ خطرہ زیادہ بھیانک نہیں تھا۔ خطرہ یہ تھا کہ یہ اسلام کو ملوکیت اور سلطنت میں بدل دینا چاہتے تھے اور معنویت کو طاغوت کی شکل دینا چاہتے تھے۔ خلیفہ رسول ﷲ(ص) ہونے کی آڑ میں وہ اسلام کو ایک شیطانی حکومت میں بدل دینا چاہتے تھے۔ یہ مسئلہ اہم تھا۔ اسلام کو جتنا نقصان ان دو نے پہنچایا ان کے پہلے والوں نے نہیں پہنچایا۔ یہ اسلام کی بنیاد کو الٹ دینا چاہتے تھے۔ سلطنت تھی اور اس کے ساتھ ان کی مجالس میں شراب خوری اور قمار بازی بھی ہوتی تھی۔
خلیفہ رسول ﷲ (ص) اور شراب خوری اور جوئے بازی کی بزم!اور وہی خلیفہ نماز میں بھی جاتا ہے اور جماعت بھی پڑھاتا ہے۔ اسلام کیلئے یہ بھیانک خطرہ تھا۔ اس خطرے کو سید الشہدا (ع) نے دور کیا۔ مسئلہ صرف غصب خلافت کا نہ تھا۔ سید الشہدا (ع) کا قیام، طاغوتی حکومت کے خلاف تھا۔ وہ طاغوتی حکومت جو اسلام کو اس رنگ میں رنگنا چاہتی تھی کہ اگر وہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوجاتی تو اسلام کچھ کا کچھ ہوجاتا۔ اسلام پچیس سو سالہ شہنشاہی کے مانند ہوجاتا۔ اسلام اس لیے آیا تھا کہ ملوکیت کے طرز کی حکومت کا صفایا کرے اور دنیا میں خدائی حکومت قائم کرے۔ وہ چاہتا تھا طاغوت کا قلع قمع کر کے اﷲ کی حاکمیت کا اعلان کرے جبکہ یہ لوگ چاہتے تھے کہ اﷲ کی جگہ طاغوت کی حاکمیت کا اعلان کریں اور دور جاہلیت کی یاد تازہ کریں ۔ امام حسین(ع) کا قتل ہوجانا، شکست نہیں تھی، اس لیے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں قیام کیا اور خدا کی راہ میں قیام کرنے سے شکست نہیں ہوتی۔
(صحیفہ امام، ج ۸، ص ۱۰۹)