عراق کی طرف جلا وطنی

عراق کی طرف جلا وطنی

۵ اکتوبر ۱۹۶۵ء  کو امام خمینیؒ اپنے فرزند آیت اللہ حاج آقا مصطفی ؒ کے ہمراہ ترکی سے اپنی جلاوطنی کی دوسری منزل عراق بهیج دئے گئے ۔ امام ؒ کے مقام جلا وطنی کی تبدیلی کی وجوہات اور محرکات کو اس مختصر کتابچے میں مفصل طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا ، البتہ اس کے اہم وجوہات مختصرا یہ ہیں : اندورون اور بیرون ملک کے مذہبی حلقوں اور دینی درسگاہوں کے علما اور طلبہ کا مسلسل دباؤ ، بیرون ملک مقیم مسلمان طلبہ کی طرف سے امام ؒ کی رہائی کے لئے کی جانے والی کوششیں اورمظاہرے،امریکہ کی زیادہ سے زیادہ ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے شاہی حکومت کی طرف سے حالات کو معمول کے مطابق قرار دینے اور اپنی طاقت واستحکام ثابت کرنے کی سعی ، سکیوریٹی کے نقطہ نگاہ اور ذہنی تحفظات کے سلسلے میں ترک حکومت کو درپیش مسائل اور ترکی کے مذہبی حلقوں کی طرف سے حکومت پر دباؤ مندرجہ بالا وجوہات ۔ سے بڑه کر سب سے اہم وجہ یہ تهی کہ شاہ خام خیالی سے سوچنے لگا تها کہ اس دور میں حوزہ علمیہ نجف اشرف پر طاری سکوت اور سیاست مخالف فضا میں امام ؒ کی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ جائیں گی ، اس کے علاوہ بغداد کی حکومت بهی ان کی راہ میں روڑ ے اٹکائے گی ۔

بغداد پہنچنے کے بعد امام خمینیؒ ائمہ اطہارؑ کی زیارت کیلئے کاظمین، سامراء اور کربلا کے دورے پر گئے ، اور ایک ہفتے کے بعد اپنی اصلی اقامتگاہ نجف اشرف چلے گئے ۔ ان شہروں میں طلبہ، علماء اور عوام نے آپؒ کا شایان شایان استقبال کیا ، اس سے شاہی حکومت کی سوچ کے  بر عکس یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ 5 جون کی تحریک کے پیغام کو عراق بالخصوص نجف اشرف میں بهی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی تهی ۔ عراق کے صدر عبدالسلام عارف کے ایلچی سے امام خمینیؒ کی مختصر گفتگو اور ابتدامیں ہی عراقی ریڈیو ٹیلی ویژن پر انٹریو کی پیش کش کو ٹهکرانے سے ثابت ہو گی اکہ امام ؒ کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنے الٰہی جہاد کو بغداد اور تہران کی حکومتوں کے آپس کے مفادات پر قربان کریں ۔ا مامؒ کی یہ پالیسی عراق میں قیام کے پورے عرصے میں قائم و دائم رہی ، اس لحاظ سے بهی آپؒ کا شمار دنیا کے ان معدودے چند سیاسی قائدین میں ہوتا ہے جو تکلیفوں اور سخت ترین دباؤ کی حالت میں بهی مروجہ سیاسی چالوں کو آزمانے اور اپنے اعلیٰ مقاصد پر سودا بازی کیلئے تیار نہیں ہوتے ، جبکہ اس وقت ایران اور عراق کی حکومتوں کے درمیان سخت کشیدگی پائی جاتی تهی اور امام ؒ کی طرف سے معمولی گرین سگنل دکهانے سے شاہ کے خلاف لڑنے کیلئے آپؒ کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم ہو سکتی تهیں لیکن نہ صرف یہ کہ امام ؒ نے ایسا نہیں کیا بلکہ آپ دونوں محاذوں پر بیک وقت برسرپیکار رہے ، بعض موقعوں پر آپؒ نے بغداد حکومت کی تحریک چلانے کی حد تک مخالفت کی ۔ اس بات میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ اگر امام ؒ کا فہم و فراست نہ ہوتا تو اسلامی انقلاب بهی انہی راستوں پر بهٹک جاتا جن پر چل کر ایران کی مختلف تحریکیں ، سیاسی محاذ اور سیاسی جماعتیں ،وابستگی یا شکست کے بهنور میں ڈوب گئی تهیں ۔

نجف اشرف میں امام ؒ کی طویل ۱۳ سالہ قیام کا آغا ز ایسے حا لات میں ہوا جن کی روسے بظاہر ایران اور ترکی میں پائے جانے والے براہ راست دباؤ اور پابندیاں تو موجود نہیں تهیں لیکن آپؒ کوبڑے پیمانے پر اور تکلیف دہ حد تک مخالفتوں ،رکاوٹوں اور زبانی چوٹوںکاسامنا کرناپڑا ، وہ بهی دشمن کی طرف سے نہیں بلکہ دین کا لبادہ اوڑهے ہوئے دنیا پرست اور نام نہاد علماء کی طرف سے ، اس حالت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام ؒ نے بارہا ان برسوں میں اپنی جدوجہد کے سخت حالات کی تلخی  سے یاد کیاہے ، در حالیکہ آپ ؒ صبر و برد باری میں شہرت رکهتے تهے ۔تاہم ان میں سے کسی قسم کی تکلیف یا سختی امام کو اس مشن سے منحرف نہ کرسکی جس کو آپ نے سوچ سمجه کر چنا تها ۔ امام خمینیؒ کو پہلے سے ہی علم تها کہ ایسی فضا میں جہاد کی بات کرنا یا تحریک کی دعوت دینا بے سود ہے ، لہذا آپؒ کو چاہئے تها کہ از سرنو ایسے نقطے سے جہادی عمل کا آغا ز کریں جہاں سے آپ5 جون کی تحریک کے ذریعے برسوںپہلے ایران اور حوزہ علمیہ قم میں اپنی جو جہد شروع کی تهی یعنی حالات کی تدریجی اصلاح اور تبدیلی پیدا کرنے کے علاوہ ایسی نسل کی تعلیم و تربیت جو آپ کے پیغام اور مقا صد کو سمجه سکے ۔ اسی لئے مفاد پرست عناصر کی مخالفت اور رکاوٹ کے باوجود امام ؒ نے اکتوبر / نومبر ۱۹۶۵م میں نجف اشرف کی مسجد شیخ انصاریؒ میں فقہ کا درس خارج دینا شروع کیا جس کا سلسلہ عراق سے پیرس کی طرف ہجرت تک جاری رہا ۔ فقہ اور اصول فقہ کے مبانی پر امام ؒ کے نظریات اتنے پختہ تهے اور دیگر اسلامی علوم و معارف کے شعبوں میں آپ  دسترسی اتنی وسیع تهی کہ رجعت پسندوں کی طرف سے روڑ ے اٹکا ئے جانے کے باوجود قلیل مدت میں طلبہ کی تعداد اور ان کی استعداد کے لحاظ سے آپؒ کا حلقہ درس حوزۂ علمیہ نجف کے سب سے بڑے حلقوں میں شمار ہونے لگا ۔ بڑی تعداد میں ایرانی ، پاکستانی ، عراقی ، افغانی ، ہندوستانی اور خلیج فارس کے ممالک سے تعلق رکهنے والء طلبہ روزانہ امام خمینیؒ کے چشمہ پر فیض سے علمی پیاس بجهانے کیلئے حاضر ہوتے تهے ایران کے حوزہ ہاے علمیہ سے امام ؒ کے چاہنے والے اجتماعی طور پر نجف اشرف کی طرف ہجرت کرنا چاہتے تهے لیکن آپؒ نے انہیں اپنے اپنے علاقوں میں ڈٹے رہنے اور ایران کے حوزہ ہائے علمیہ کی حفاظت کرنے کی تلقین فرمائی ۔ اس طرح ان کی حسرت دل میں ہی رہ گئی ، تاہم امام ؒ کے بہت سے شیفتہ و دلدادہ افراد نجف اشرف پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جس کی وجہ سے وہاں آپؒ کے مشن پر یقین رکهنے والی انقلابی قوتوں کا ایک گروہ قائم ہوا جس کے اراکین نے گهٹن کے سالوں میں امام ؒ کے جہادی پیغامات پہنچانے کے فرائض اداکئے ۔

نجف اشرف پہنچنے کے فورا بعد امام خمینیؒ نے خطوط اورنمائندوں کے زریعے ایران میں جہادی عناصرسے اپنا رابطہ قائم کرلیا ، آپ ؒ ان پر ہر وقت 5 جون کی تحریک کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ثابت قدم رہنے کی تاکید فرماتے تهے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے خطوط میں آپؒ نے کهل کر اس بات کی طرف اشارہ کیاہے کہ عنقریب ایران میں ایک سیاسی دهماکہ ہونے والا ہے ، لہذا ایرانی علماء کو آنے والے وقت میں معاشرے کی رہنمائی کے فرائض کی ادائیگی کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔ یہ پیش گوئیاں اس وقت کی گئی تهیں کہ بظاہر حالات میں تبدیلی کی ذرہ بهر توقع نہیں پائی جاتی تهی بلکہ شاہی حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور انداز میں ہر قسم کی مزاحمتوں کو کچلنے میں کامیاب نظر آتی تهی ۔

امام خمینیؒ کی جلاوطنی اور مخالفین کا قلع و قمع کرنے کے بعد شاہی سرخ فیتے کی حکومت کا سیاہ ترین دور شروع ہوا ۔ ساواک اپنی مطلق العنانیت کے عروج پر پہنچی ،حتی کہ دور درز علاقوں میں بهی کسی ملازم کی تقرری سے پہلے ساواک کی تایید ضروری سمجهی جاتی تهی ۔ اس دور میں عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ کے صرف نام رہ گئے تهے ۔ شاہ سمیت گنے چنے بعض درباری حضرات اور خواتین ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے تهے ۔ لیکن ایران میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد شائع ہونے والی شاہ ایران کی آخری کتاب اور انٹریوز، اسی طرح پہلوی خاندان کے افراد ، بعض فوجی افسروں اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام کی خود نوشت تحریروں اور اعترافات کے مطابق ، نیز ایران میں امریکی سفار ت خا نے سے ملنے والی دستاویزات کی روسے اس بات میں کسی قسم کا شک و تردید باقی نہیں رہتا کہ شاہ اور اس کے درباریوں کی حیثیت آلہ کار اور بے اختیار ایجنٹوں کے سواکچه بهی نہیں تهی۔ اہم معاملات کی ہدایات ، شاہی دربار اور حکومت کے اندر ہونے والی کاروائیوں حتی کہ وزیروں کے انتخاب ، فوجی افسروں کی تقرری اور حساس قانونی بلوں کی ترتیب و تدوین عام طورپرامریکی سفارتخانے میں اور بعض اوقات برطانوی سفارتخانے کے ذریعے ہوتی تهی ، یہاں پر ہم شاہ ایران کے اعترافات کے دو اقتباسوں پر اکتفا کرتے ہیں ، وہ لکهتا ہے : ’’ ۔۔ ۔۔ ہر ملاقات میں امریکہ اور برطانیہ کے سفرا کہتے تهے : ہم ۷۹ ۔ ۷۸ ۱۹ ء کے موسم خزاں میں آپؒ کی حمایت کریں گے ، وہ مجهے زیادہ سے زیادہ آزاد سیاسی فضا قائم کرنے کی ترغیب دیتے تهے ۔۔۔۔ غالبا جس وقت میں امریکی سیاستدانوں اور امریکی ایلچیوں کو شرف باریابی بخشتا تو وہ مجهے ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے تهے ، لیکن جب میں نے اس معاملے میں یو نائیٹڈ اسٹیٹ کے سفیر سے استفسار کیا تو اس نے جواب دیا کہ اسے اس طرح کا کوئی حکم نہیں ملا ہے ۔۔۔ چند ہفتے پہلے تہران میں ادارہ سی آئی اے کا نیا سربراہ مجه سے ملنے آیا ، تو اس کے فضول اور صریح خیالات سے میں حیران ہو کر رہ گیا ، فضا کے بارے میں گفتگو کی ، اس وقت میں نے اس کے چہرے پر مسکرہٹ بکهرتے دیکها ۔۔۔ ۔ بہر حال وہ لوگ جو کئی سالوں تک ہمارے وفادار حلیف ہوتے تهے ہمیں ، ایسے حیران کن ہنگامی مسائل سے غافل کئے رکهے جن سے ہم بعد میں دچار ہوئے [1]۔

دلچسب بات یہ ہے کہ شاہ نے اس کتاب میں اپنی بادشاہت کے زوال کی ذمداری انہی غیر ملکی غافل کرنے والے خیالی عناصر پر ڈالنے کی سعی کی ہے ، بلکہ وہ صراحت کے ساته لکهتا ہے کہ ائرفورس کے کمانڈر جنرل ربیعی نے پهانسی چڑهنے سے پہلے ججوں سے مخاطب ہو کر کہا تها : جنرل ہوئزر نے شاہ کو ایک مردہ چوہے کی طرح اٹها کر ملک سے باہر پهینک دیا![2] اگر چہ یہ بار تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے اور بے شمار دستاویزات اور قرائن و شواہد کے علاوہ سب سے بڑه کر ہوئزر کی اپنی کتاب[3] میں کئے جانے والے اعترف کے مطابق وہ شاہ  کو ملک سے باہر نکال پهینکنے کیلئے نہیں بلکہ اس کی بادشاہت کی ڈگماتی ہوئی بنیادوں کو مستحکم کرنے کیلئے بحرانی دنوں میں فوجی کودتا کا پروگرام مرتب کرنے تہران آیا تها ! ! برفرض محال ہم اس کے اس دعوے کو مان لیتے ہیں، لیکن شاہ ایران نے اپنی کتاب کے عنوان کے برخلاف تاریخ کو کسی قسم کا جواب نہیں دیا ہے ، ورنہ کیا یہ ممکن یہ ممکن ہے کہ اپنی ۳۷ سالہ حکومت کے دوران بڑے بڑے دعوے کرنے والا اور ’’ کوروش تو آرام سے سوجا! ہم جاگ رہے ہیں ‘‘! ! جیسے نعرے لگانے والا شاہ ایران اپنے ملک کی آزادی کے معاملے میں اس طرح کا رویہ اختیار کرے کہ نچلے درجے کا ایک امریکی جنرل چند دن تہران میںقیام کرکے شاہ ایران کو مرے ہوئے چوہے کی طرح ملک سے نکال کر باہر پهینک دینے کی جرأت کر سکے ؟ !!

بہر حال ۱۵ خرداد کی تحریک کو کچلنے اور امام خمینیؒ کو جلاوطن کرنے کے بعد شاہ سوچ رہا تها کہ اب اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ، ملک کی حالت اتنی ابتر ہو چکی تهی کہ بعض درباری خواتین ، وزراء ، اراکین پارلیمنٹ اور ججوں کو معزول یا مقرر کرتی تهیں اور شاہ کی بہن اشرف پہلوی کو ’’ شاہی دربار کے کرتا دهرتا ‘‘ کا خطاب ملاہواتها جس کی اخلاقی برائیوں کی ذلت آمیز داستانیں اور منشیات کی ا سمگلینگ کرنے والے گروہوں کی سرپرستی پر مبنی رپورٹیں کئی بار علنیہ طور پر غیر ملکی پریس میں شایع ہوچکی تهیں ! امیر عباس ہویدا نامی ایک بہائی النسل کے ( بحیثیت وزیر اعظم ) انتخاب کا مطلب یہ تها کہ سرکاری ادارے معمولی اختیارات کے بهی مالک نہیں تهے اورعوامی اقتدار اعلیٰ کا نچلی سطح پر کہیں نام و نشان تک نہیں پایا جاتا تها اس شخص کی زبان پر اعلی حضرت ( شاہ ) کی جان نثاری کے الفاظ جاری رہتے اور وہ تیرہ سال تک چاپلوس حکومتی کابینوں میں وزارت عظمی کے عہدے پر فائز رہ چکا تها ۔

شاہ ایران پوری طاقت کے ساته اپنی من گهرت عظیم تہذیب فروغ کیلئے تک و دو کر رہا تها جس کی بنیادیں ان مقاصد پر مبنی تهیں:’’ غیر ملکی ثقافت کا پرچار ، بیہودگی اور مادر پدر آزادی کا فروغ سینکڑوں امریکی اور یورپی کمپنیوں کے ہاتهوںایران کے قومی ذخائر کی لوٹ کهسوٹ ،ایران کی نسبتا آزاد زراعت کی بنیادوں کی تباہی ، ایران کی  پیداواری صلاحیت رکهنے والی انسانی طاقت کو شہروں کی مضافتی بستیوں کی طرف دهکیل کر اسے بے روزگار اور صارف عناصر میں تبدیل کرنا ( غیر ملکی صنعت پر ) منحصر اسمبل کی جانے والی غیر ضروری صنعتوں کا فروغ ، ایران اور خلیج فارس کے علاقے میں ایرانی قوم کے سرمائے سے قائم کئے جانے والے امریکی سراغ رسا ، جاسوسی اور فوجی اڈوں کا قیام ۔

صرف 1970ء اور ۱۹۷۷ ء کے درمیانی سالوں میں امریکہ سے ایران کو بر آمد کیے جانے والے فوجی ساز وسامان کی خرید پر تیل کی آمدنی سے حاصل ہونے والے ۴.۲۶ ارب ڈالر خرچ کئے گئے اور صرف ۱۹۸۰ ء کیلئے شاہ نے امریکہ کو ۱۲ ارب ڈالر کے اسلحے کا آرڈر دے دیا تها [4]وہائٹ ہاؤس کی حکمت عملی کے مطابق ان ہتهیاروں کی فروخت کا پہلا اور آخری مقصد خلیج فارس کے حساس علاقے میں امریکی مفادات کاتحفظ تها۔ ہتهیاروں کاکنٹرول اور انہیں چلانے کے اختیارات بهی سرکاری طورپر صرف ساٹه ہزار امریکی فوجی مشیروں کوحاصل تهے ۔

شاہ ایران اہنے استحکام کے عروج کے زمانے میں کسی قسم کے غیر ملکی دباؤ اور مشکل کے بغیر روزانہ ۶۰ لاکه سے زیادہ بیرل تیل نکالتا تها ، اس وقت ایران کی آبادی ۳۳ ملین سے زیادہ نہیں تهی ۔ اور مختلف وجوہات کی بنا پر من جملہ عرب اسرائیل جنگ ( اسلامی ممالک کے ) ممکنہ بائیکاٹ سے نمٹنے کیلئے مغربی ممالک کی طرف سے زیادہ سے زیادہ تیل ذخیرہ کرنے کی کوششوں اور تیلی پیداکرنے والے اسلامی ممالک کے درمیان پہلے سے موجود اتحاد واتفاق کی بنا پر تیل کی قیمت تیس ڈالر فی بیرل کی حد سے تجاوز کر گئی تهی ، لیکن اس دورمیں بہت سے ایرانی شہروں کی میں سڑکیں کچی تهیں اور ملک کا ایک وسیع خط بجلی ، حفظان صحت کی بنیاد ی سہولتوں اور رفاہ عامہ کے منصوبوں سے محروم تها ۔ ایران کی اڑهائی ہزار سالہ بادشاہت کے افسانوی جشن میں شرکت کیلئے دنیا کے مختلف ممالک کے بیسیوں سربراہاں مملکت ، وزرائے اعظم اور دیگر اعلیٰ حکام ایران آئے ،عین اسی وقت دارالحکومت تہران میں ائرپورٹ کے قریبی علاقوں ، جنوبی تہران کے محلوںاو شہر کے مغربی اور وسطیٰ علاقوں میں واقع خیموں، جهونپڑوںاورکچی بستیوں میں ہزاروںایسے لوگ جوپہلے پیداواری صلاحیت رکهنے والے مزدور تهے ،بے روزگار اورمہاجر بن کر شدید غربت و افلاس اور بهوک کے عالم میں کس مپر سی کی زندگی گذار رہے تهے ۔ بڑی بڑی کچی بستیاں بد نما منظر پیش کرتی تهیں ، اسی لئے جشن کے دوران حکومت نے مجبور ہو کر ان کے اردگرد دیواریں کهڑی کیں اور ان پر تصویریں بنوائیں تاکہ عظیم تہذیب کے اثرات نظر نہ آسکیں،کیونکہ یہ بستیاں غیر ملکی آمد و رفت کے راستوں پر واقع تهیں ۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ تہران کے جنوبی اور مغربی علاقوں کے بہت سے محلوں کے مکین پینے کے صاف پانی سے محروم تهے ، وہاں سینکڑوں خاندانوں کیلئے پانی کا صرف ایک نل موجود تها جس سے وہ پینے کا پانی حاصل کرتے تهے ۔ ۱۹۷۶م میں سات سال کی عمرسے اوپر کے لوگوں میں ناخواندگی کی شرح ۹.۵۲ فیصد تهی[5] 1978ء میں شاہ ایران کے فرار کے وقت انقلاب سفید اور امریکی اصلاحات کے نفاذکو پندرہ سال گذر رہے تهے لیکن اس عرصے میں تیل اور دیگر قومی ذخائر کی بے دریغ پیداوار اور فروخت کے علاوہ غیرملکی  حمایت کے باوجود نہ صرف یہ کہ ایران غیر ملکی انحصار سے نجات نہ پاسکا بلکہ ملکی معیشت زراعت اور صنعت کے شعبوںمیں غیر ممالک سے وابستگی میں روز بروز اضافہ ہونے کے ساته ساته معاشی بد حالی ، عام غربت اورظلم و نا انصافی انتہا کو پہنچی تهی ، سیاسی نقطہ نگاہ سے شاہ نے ایران کو مغرب بالخصوص امریکہ کے ساته وابستہ ترین ممالک میں تبدیل کردیا تها ۔

امام ؒ نے جلاوطنی کے بعد تمام عرصے میں سخت تکالیف کے باوجود کبهی بهی جہاد اور مقابلے کے عمل کو ترک نہیں کیا ، آپؒ  تقریروں اور پیغامات کے ذریعے دلوں کے اندر کامیابی و کامرانی کی امید کو زندہ رکهتے تهے ۔ امام خمینیؒ ۱۶  اپریل ۱۹۶۷ء  کے دن ایران کے حوزۃ ہائے علمیہ کے علماء کو مخاطب قرار دے کر ایک پیغام میں رقمطراز ہوئے : ’’ میں آپؒ محترم حضرات اور ایرانی قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت شکست ست دچار ہوکر رہے گی ۔ ان کی پیشروں نے اسلام سے طمانچہ کها یا ہے ۔۔۔ یہ بهی کها کر رہیں گے ۔۔ ۔ ثابت قدم رہو ، ظلم کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرو ، یہ لوگ چلے جائیں گے اور آپ ہی باقی رہیں گے ۔۔۔ یہ کند اور عاریتا لی گئی تلواریں نیام میں چلی جائیں گی[6]۔ امام ؒ نے اسی دن شاہی حکومت کے وزیر اعظم امیر عباس ہویدا کے نام ایک کهلا خط لکها جس میں آپؒ نے حکومت کے جرائم بیان کرنے کے علاوہ اسلامی ممالک کے خلاف شاہ کی محاذ آرائی کے بارے میں خبر دار کرکے لکها تها : ’’ اسرائیل کے ساته بهائی چارے کا معاہدہ نہ کرو جو اسلام کا دشمن ہے اور جس نے ایک ملین سی زیادہ ڈالر بے گهر مسلمانوں کو ملک بدر کیا ہے ، مسلمانوں کے جذبات کو ٹهیس نہ پہنچائو، اسرائیل اور اس کے غدار ایجنٹون کو مسلمانوں کی مارکیٹوں کی طرف اس سے زیادہ ہاته نہ بڑهانے دو، ملکی معیشت کو اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں کی خاطر خطرات سے دچار نہ کرو، ثقافت کو ہوا و ہوس کی بهینٹ مت چڑهاؤ ۔۔۔ خداکے غضب سے ڈرو۔۔ ۔۔قوم کے غضب سے ڈرو’’  انّ ربک لبالمرصاد ‘‘[7]۔

شاہ نے امام ؒ کے ارشادات پر کوئی توجہ نہ دی ، اسلامی ممالک اسرائیل سے لڑنے کیلئے تیار تهے ، لیکن شاہ ایران کی حکومت اسرائیل کو خصوصی مراعات فراہم کرتی رہی جس کی وجہ سے ایران میں اسرائیلی مصنوعات کی مارکیٹ کو رونق حاصل ہوا ۔ مختلف قسم کے اسرائلی میوے ، غذائی اجناس ، مرغی اور انڈے ملکی مصنوعات سے کم قیمت پر اور بڑی مقدار میں بازاروں میں دستیاب ہوتی تهیں ۔

۷ جون ۱۹۶۷ ء  کو امام خمینیؒ نے عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر ایک پیغام میں اپنا انقلابی فتوے صادر کیا جس میں آپؒ اسرائیل کے ساته اسلامی ممالک کے ہرقسم کے تجارتی اور سیاسی روابط ، نیز عالم اسلام میں اسرائیلی مصنو عات کے استعمال کو حرام قرار دیا تها[8] اس فتوے نے شاہ اور اسرائیل کے درمیان فروغ پانے والے تعلقات کو سخت دهچکہ پہنچایا ، ایرانی علما اورطلبہ نے بیانات کے ذریعے شاہی حکومت پر دباؤ ڈالا ۔ انتقامی کاروائی کے طور پر حکومت نے قم میں امام خمینیؒ کے گهر پر دستاویزات اور کتب کو لوٹنے کے علاوہ قم کے دینی مدارس پر حملہ کرکے امام ؒ کی تصانیف اور تصاویر کو ضبط کر لیا ۔ اس حملہ میں امام خمینیؒ کے فرزند  حجت الاسلام سید احمد خمینیؒ ، حجت الاسلام شیخ حسن صانعی اور (امام ؒ کے شرعی وکیل) مرحوم آیت اللہ اسلامی تربتی کو گرفتار کرکے جیل بهیج دیا گیا ۔ ان حضرات کے علاوہ امام ؒ کے دیگر انقلابی ساتهیوں کی مساعی کی وجہ سے شاہ کی ساواک فورس امام ؒ کی طرف سے ( دینی طلبہ کو) دیئے جانے والے ماہانہ وظیفے اور عوام کی جانب سے اپنے مرجع (امام ) کو شرعی مدات کے ضمن میں بهیجے جانے والے اموال کا سلسلہ روکنے میں ناکام ہو کر رہ گئی تهی ۔ اس سے ایک عرصہ پہلے    حجت الاسلام سید احمد خمینیؒ ، امام ؒ سے پیغامات کے علاوہ سرگرمیاں جاری رکهنے کے طور پر طریقوں کے سلسلے میں آپؒ کے احکامات حاصل کرنے اور قم میں آپؒ کے دولت کدے کے معاملات نمٹانے کیلئے نجف اشرف گئے تهے ، واپسی پر ۱۳۴۶ ه ش کے اوائل ( ۱۹۷۷ء ) میں انہیں شاہ کی سکیوریٹی فورسز نے عراق / ایرن سرحد سے گرفتارکر کے قزل قلعہ جیل بهیج دیا جہاں وہ کچه مدت تک مقید رہے ، بر آمد شدہ دستاویزات کے مطابق ان برسوں میں ساواک کی زیادہ تر کوشش یہ تهی کہ امام ؒ کا یران میں موجود مقلدین سے رابطہ قطع کرکے ، آپؒ کی جانب سے (دینی طلبہ کو) دیئے جانے والے ماہانہ وظیفے کا سلسلہ بندکر دیاجائے ، ایران میں امام خمینیؒ کے شرعی وکلا مثلا حضرات آقائے اسلامی تربتی ، حاج شیخ محمد صادق تہرانی (کرباسچی) اور (آپ کے بڑے بهائی ) آیۃ اللہ پسندیدہ سرکاری دهمکیوں ، قید و بند اور جلا وطنی کی سزاؤں کے باوجود سر گرم عمل تهے ، دوسری طرف قم میں امام خمینیؒ کے فرزند کی زیر نگرانی آپؒ کے  دولت کدے کی سرگرمیاں بهی جاری تهیں جو ۱۵ خردادکے انقلاب کا مرکز شمار ہوتا تها، یہ سب معاملات حکومت کے ( مذموم) عزائم کی تکمیل کی راہ میں اہم ترین رکاوٹیں تهیں ، امام ؒ کے نام اور یاد کا تازہ رہنا اسی طرح قم میں آپؒ کے دولت کدے کی سرگرمیاں ساواک کیلئے بہت حساس تهیں چنانچہ چار سال تک صبح سویرے سے لے کر رات گئے تک سکیوریٹی فورسز اور پولیس والے ملاقات کرنے والوں اور امام ؒ کے مقلدین پر کڑی نگرانی رکهتے اور انہیں وہاں جانے سے روکتے تهے ، لیکن امام ؒ کے عقیدتمند ، شاہی کارندوں کے چلے جانے کے بعد آدهی رات کو وہاں جمع ہوتے اور عوام کے ساته امام ؒ کے روابط سے متعلق امور پر بحث و تمحیص کرتے تهے ۔انہی دنوں 1967 ء  میں امام خمینیؒ کو نجف اشرف سے ہندوستان جلا وطن کرنے کے ایک شاہی منصوبہ کا راز فاش ہو الیکن بیرون ملک اور ملک کے اند سرگرم عمل مجاہد سیاسی جماعتوں کی مساعی اور مخالفت کی وجہ سے اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا یا جاسکا۔

۱۷ جولائی ۱۹۶۸ ء  کو عراق میں بعثت پارٹی برسر اقتدار آئی ، اس پارٹی کی اسلامی تحریکوں سے مخالفت کی وجہ سے امام خمینیؒ کی تحریک کو زیادہ تر دشواریوں کا سامنا کر نا پڑا لیکن آپؒ نے جہادی مشن نہیں چهو ڑا۔ نجف اشرف میں قیام اور عرب اسرائیل جنگ کے دوران عالم اسلام میں بیداری کی لہر پیدا ہونے کی وجہ سے امام خمینیؒ کیلئے وسیع پیمانوں پر اپنے اعلیٰ مقاصد بیان کرنے کا سنہری موقع فراہم ہوا ۔ ان مقاصد میں مذہب کی مخالفت کے دور میں دینی عقائد پر عمل درآمد ، امت مسلمہ کی خودی کی طرف بازگشت ، اس کی عظمت رفتہ کو لوٹانا اور مسلمانوں کی صفوں میں وحدت و یک جہتی کاقیام شامل تها اور یہ صرف ایران میں شاہ سے مقابلہ و جہاد تک محدود نہیں تهے ۔

۱۱  اکتوبر 1968 ء  کو فلسطین کی تنظیم الفتح کے نمائند ے سے گفتگو کرتے ہوئے امام خمینیؒ نے اسے عالم اسلام کے مسائل اور فلسطینی قوم کی جد وجہد کے سلسلے میں اپنے نظریات سے آگاہ کیا ، اسی انٹریو کے دوران آپؒ نے فتویٰ دیا تها کہ  زکات کے دینی فریضے کا ایک حصّہ فلسطینی مجاہدین کے لئے مختص کرنا واجب ہے[9] 

1969ء کے اوائل میں شاہ ایران اور عراق پر حاکم بعث پارٹی کی حکومتوں کے درمیان دونوں ملکوں کی دریائی سرحد پر تنازعہ شدت اختیار کر گیا ، عراقی حکومت نے عراق میں مقیم بہت سے ایرانیوں کو بد ترین حالات میں ملک سے نکال دیا، بعث پارٹی نے ان حالات میں ایرانی حکومت کے ساته امام خمینیؒ کے اختلافات سے ناجائز فائدہ اٹهانے کی بہت کوشش کی ، دوسری جانب سے شاہ ایرن بهی امام ؒ کی تحریک کی خود مختار حیثیت کو زک پہنچانے کیلئے معمولی بہانہ ڈهونڈ رہا تها ، لیکن آپؒ عقلمندی سے دونوں حکومتوں کی سازشوں کو مقابلہ کرتے رہے ۔ آیۃ اللہ حاج آقا مصطفی نے طلبہ اور ایرانیوں کو عراق سے نکال دینے کی مخالفت اور بعث پارٹی کے ساته کسی قسم کے ساز باز کو مسترد کرنے پر مبنی امام ؒ کا پیغام سرکاری طورپر بغداد میں عراق کے صدر احمد حسن البکر اور اجلاس میں موجود دوسرے حکام تک پہنچایا ۔

۲۱ اگست ۱۹۶۹ ء  کو بعض کٹر قسم کے صہیونیوں نے مسجد اقصی کے ایک حصّے کو آ گ لگادی! رائے عامہ کے دباؤ میں آکر شاہ ایرن نے مسجد کی مرمت کے اخراجات برداشت کرنے کی تجویز منظور کرتے ہوئے اس کام میں اسرائیل کی مدد کا وعدہ کیا تاکہ مسلمانوں کے غم و غصے کو ٹهنڈا کیا جا سکے !!

امام خمینیؒ نے ایک پیغام کے ذریعے شاہ کے مکر و فریب سے پردہ اٹهاتے ہوئے تجویز دی :

’’ جب تک مقبوضہ فلسطین آزاد نہیں ہوتا ، مسلمانوں کو مسجد الاقصی کی مرمت نہیں کرنی چاہئے ، صہیونزم کے جرائم کو مسلمانون کی نظروں کے سامنے زندہ رکهنا چاہئے تاکہ فلسطین کی آزادی کی جد وجہد میں تیزی آسکے [10]۔

چار سال تک درس وتدریس ، سعی و کوشش اور فکروں کو جلا بخشنے کے بعد امام خمینیؒ کچه حد تک حوزۂ علمیہ نجف اشرف کی فضا میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے ۔ ۱۹۶۹م  تک ملک کے اندر موجود بے شمار مجاہدوں کے علاوہ عراق ، لبنان اور دیگر اسلامی ممالک میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے تهے جو امام خمینیؒ کی تحریک کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دیتے تهے۔ امام خمینیؒ نے ۱۹۷۰ء کے اوائل  میں اسلامی حکومت یا ولایت فقیہ کے موضوع پر درس کا آغاز کیا ۔دروس کے اس مجموعے کو ’’ ولایت فقیہ یا حکومت اسلامی‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل دے کر موسم حج میں ایران ، عراق اور لبنان سے چهپواکر تقسیم کیا گیا جس سے تحریک میں ایک نئی جان پڑ گئی ۔اس کتاب میں جہادی عمل کے خدو خال اور انقلابی مقاصد بیان کرنے کے ساته ساته قائد انقلاب کی زبان سے اسلامی حکومت فقہی ، اصولی اورعقلی بنیادوں پر تشریح اور اسلامی حکومت کے طرز وروش سے متعلق نظریاتی مباحث پیش کی گئی تهیں ۔ ۱۹۷۰ ء  میں امریکی پریس نے راکفلر کی قیادت میں بڑے امریکی سرمایہ داروں کے ایک وفد کی ایران روانگی کی خبر شائع کی ۔ یہ وفد اس بات کی تحقیق کرنے ایران آیاتها کہ ایرانی تیل کی آمدنی کو کس طرح امریکہ منتقل کیا جا سکتا ہے جس میں رواں سال کے بعد حیران کن حد تک اضافہ ہوانے والا تها ، اس کے علاوہ یہ دیکهنا تها کہ اس وسیع و عریض دسترخوان سے نوالے جنتے کیلئے امریکی تجارتی کمپنیوں کو کس قسم کی حکمت عملی اختیار کرنا چاہئے ساواک کئی مہینے پہلے امام خمینیؒ کے حامی بہت سے علماء کرام کے موعظہ وخطاب پر پابندی لگا چکی تهی لیکن فرض شناس علماء کرام نے جو اسلامی حکومت کے بارے میں امام ؒ کے نظریات کا مطالعہ کرنے کے بعد نیا ولولہ حاصل کر چکے تهے ، ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی حد سے زیادہ مداخلت کے حقائق سے پردہ اٹها تے ہوئے اس کی مخالفت میں آوازاٹهائی ۔

آیت اللہ سعیدی ؒ کو جو امام خمینیؒ کے کٹر حامیوں میں سے تهے ، ساواک نے اسی ماہ  ۱۹۷۰ ء  میں گرفتار کیا اور دس دن تک اذیتیں دینے کے بعد قزل قلعہ جیل میں انہیں شہید کیا ۔ امام خمینیؒ نے ایک بیان میں آیت اللہ سعیدیؒ کی جدو جہد کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : ’’ یہ مرحوم سعیدی ہی نہیں جسے ایسی دردناک حالت میں زندان کے ایک کونے میں قتل کر دیا گیا‘‘ ۔ اس بیان میں آگے چل کر امام ؒ نے لکها تها : ’’ امریکی ماہرین اور بڑے سرمایہ دار عظیم غیرملکی سرمایہ کاری کے نام پر اس مظلوم قوم کو غلام بنانے کے لئے ایران پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ امریکی سرمایہ داروں اور دیگر استعماری طاقتوں سے کیا جانے والا معاہدہ قوم کی امنگوں اور اسلامی احکام کے خلاف ہے [11] ‘‘

سیاسی پارٹیاں اور سیاسی گروہ

5 جون کی تحریک کے بعد سے انقلاب کی کامیابی تک ایرانی قوم کے جہاد کے میدان میں سنجیدگی سے فعال اور سرگرم رہنے والا سب سے بڑا گروہ امام خمینیؒ کے نقش قدم پر چلنے والے علماء کرام کا غیرجماعتی اور خود آگاہ طبقہ تها جو تحریک کے مقاصد کی تکمیل میں پیش پیش رہا ۔یہ طبقہ عوام کی جڑوں میں پیوست اپنی مذہبی بنیادوں کے علاوہ شہروں اور دیہاتوں کے مختلف عوامی گروہوں کے ساته اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر مرحلے پر امام خمینیؒ کے مقررکردہ خطوط اور پالیسوں کے مطابق تحریک کی رہنمائی کرتا رہا۔ وعظ وخطاب پر پابندی ، دور ترین علاقوں کی طرف باربار شہر بدری ، اذیت و آزار کے ساته کئی مرتبہ جیل جانا اور شاہی قید میں شہادت کے درجے پر فائز ہونا ۱۵ خرداد کی تحریک کے بعد ایران کے فرض شناس علماء کے مقدر میں لکها جا چکا تها ۔ اس کے باوجود اس طبقے نے اپنے مقاصد نہیں چهوڑے ۔ ۵ جون ۱۹۶۳ ء  کی تحریک کے بعد امام خمینیؒ کی مرجعیت اور قیادت تسلیم کرنے والے تہران کے مذہبی گروہوں نے جن میں سے بیشتر پیشہ ور افراد اور علماء کرام تهے ’’ہیئت ہائے مؤتلفۂ اسلامی ‘‘(متحدہ اسلامی جماعتوں) کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی ۔ اس تنظیم کی عسکری شاخ فدئیان اسلام کے طرز پر سر گرم ہوتی تهی ۔ شاہی حکومت کے وزیر اعظم حسن علی منصور کے قتل کی انقلابی کاروائی اسی گروہ کا کارنامہ تهی جس کے دامن پر کیپچو لائزیشن بل کی منظوری کا بدنما داغ لگا ہواتها ۔ شاہی حکومت  نے اس گروہ کے بعض اہم افراد کو پکڑ کر گولیوں سے بهون ڈالا اورا نکے دیگر ساتهیوں کو لمبی مدت کیلئے جیل بهیج دیا گیا ۔ اس گروہ کے اراکین اور اس کے حامیوں نے تحریک کے دوران امام خمینیؒ کے بیانات کی اشاعت اور تقسیم کے علاوہ پیشہ ور طبقے اور تاجر برادری کی طرف سے احتجاجی پروگراموں کو ترتیب دینے میںاہم کردار ادا کیا تها۔ شاہی اقتدار کے آخری مہینوں میں جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کے پروگرام مرتب کرنے میں بهی ان کا بڑا حصّہ تها۔ حزب ملل اسلامی (مسلم اقوام پارٹی) کا قیام بهی ۱۵ خرداد کی تحریک کے بعد عمل میں آیا تها جس کے اراکین علمائے کرام ، دانشوروں اور دیگر طبقات کے افراد پر مشتمل تهے ، اس پارٹی کا مقصد شاہی حکومت کے ساته مسلح مقابلہ تها ۔ اسی لئے یہ اسلحہ جمع کرنے کے علاوہ اپنے اراکین کی ٹریننگ میں سرگرم عمل ہوگئی تهی لین ساواک کی نگرانی کی وجہ سے یہ تنظیم کمزور ہوگئی ۔ اس کے بعض عہدیدار اور اراکین تہران کے شمالی پہاڑوںمیں چهپ گئے تهے جنہیں بڑے پیمانے پر فوجی محاصرے کے ذریعے گرفتار کرکے جیل بهیج دیا گیا ۔

۱۹۶۳ ء  سے پہلے قائم ہونے والی پارٹیوں میں تودہ پارٹی جبۂ ملی (قومی محاذ) اور نہضت آزادی ایران ( تحریک آزادی ایران ) کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ کمیونسٹ تودہ پارٹی جس پر ایران کی رائے عامہ غداری کا الزام لگا چکی تهی ، ۱۵ خرداد سے مدتوں پہلے عملی طور پر شاہ مخالف سر گرمیوں کو خیر باد کہہ کر اپنے ادروں کو ملک سے باہر منتقل کرنے کے بعد مسلسل جماعتی اختلافات میں الجهی ہوئی تهی   اسکے علاوہ اس پارٹی کے بعض سرکردگان اور اراکین گرفتار ہونے کے بعد حکومت کے ہمنوا بننے کے علاوہ شاہی حکومت کے حساس عہدوں پر فائز ہوئے ؛ تودہ پارٹی کی پالیسیاں براہ راست ماسکو کے فیصلوں کے مطابق عمل پیراہونے پر مبنی تهیں اور شاہ کی حکومت کے اگلے ۲۵ سالوں میں کرملین محل کی حکمت عملی شاہی حکومت کے ساته تعلقات کی بحالی اور ایران میں اقتصادی مواقع کوضائع نہ کرنے کے خطوط پر استوار تهی ۔ اس دور میں تودہ پارٹی کی سرگرمیاں ،سیاسی بیانات کے اجرا اور بیرون ملک قائم ایک ریڈیو اسٹیشن تک محدود تهیںجسے ماسکو کی طرف سے سویت یونین کے مفا دات کے تحفظ کیلئے دباؤ ڈالنے کے ایک ذریعے کے طورپر استعمال کیا جا تا تها ۔ جبۂ ملی پارٹی تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک میں حاصل ہونے والی حیثیت کے باوجود  ۱۹ اگست ۱۹۵۳ ء   کی فوجی بغاوت کے بعد گوشہ نشین ہوگئی ، پهر اختلافات کا شکار ہو کر مختلف شاخوں میں بٹ گئی ۔اس پارٹی کے حامیوںکی اکادکا پروپیگنڈہ سرگرمیاں زیادہ تر بیرون ملک قائم طلبہ تنظیموں تک محدود تهیں ۔ جبۂ ملی کے حامی دانشور اور مذہبی افراد ، پارٹی رہنماؤں کے مواقف کے بر عکس امام خمینیؒ کی تحریک کی حمایت کرتے تهے ۔ نہضت (تحریک) آزادی ایران جس کو آیت اللہ طالقانی جیسے مجاہد رہنما کی حمایت حاصل تهی ، امام خمینیؒ کی ۱۵خرداد کی تحریک کی حمایت کرتی تهی ، اس پارٹی کی بنیادیں کالج یونیورسٹی کے مذہبی عناصر اور بیرون ملک طلبہ کی صفوں میں استوار تهیں ،لیکن کسی قسم کے سیاسی اداروں کے فقدان کی وجہ سے یہ جہادی پروگرام مرتب کرنے سے قاصر تهی ۔

شاہی حکومت کے خلاف مسلح جد وجہد کے محرکات کے تحت ۱۹۶۵-۶۶ء  کے دوران سازمان مجاہدین خلق (تنظیم عوامی مجاہدین) کا قیام عمل میں آیا ۔ اس تنظٰم کے قائدین کی اسلام کے بارے میں سرسری معلومات کی وجہ سے اس کے نظریات میں خلط ملط پیدا ہوئی اسی لئے ایک اسلامی تنظیم کہلانے کے باوجود اندرونی طورپر اپنے اراکین کو علم معاشیات اور جہادی اصول کے عنوان سے مارکسی نظریات پڑهاتی تهی ۔

امام ؒ نے اس تنظیم کی تائید سے اجتناب کیا ، جبکہ اس وقت ابهی تنظیم کے انحرافی نظریات بے نقاب نہیں ہوئے تهے ، اس تنظیم کا ایک نمائندہ امام خمینیؒ کی تائید حاصل کرنے کیلئے نجف اشرف چلاگیا توا ٓپ ان لوگوں کے فکری انحرافات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے حمایت نہ کرنے کے موقف پر قائم رہے ۔

سازمان چریکهای فدائی خلق ( عوامی جاں نثار چهاپہ ماروں کی تنظیم ) ایک اور پارٹی تهی جو دو چهوٹی کمیونسٹ جماعتوں کے اتحاد کے  نتیجے میں تشکیل پائی تهی[12] اس تنظیم نے ۱۹۷۱م میں مسلح جد وجہد کی حکمت عملی کے ساته اپنے قیام کا اعلان کیا تو وہ پارٹی کی حالت زارکی وجہ سے ایران کے کمیونسٹ عناصر کا احساس شکست اور حقارت ، اس کے علاوہ تودہ پارٹی کی غداریاں اور دوسری طرف ۱۵ خردادکی تحریک میں علمائے کرام اور اسلامی قوتوں کا بنیادی کردار اس پارٹی کے قیام کے اہم محرکات شمارکئے جاسکتے ہیں ۔

دونوں اتحادی گروہ ابتدائی برسوں میں رکنیت سازی کے بعد اپنے اراکین کی ٹریننگ میں سرگرم ہوگئے[13] تاہم ایک محدود اور اکادکا مسلح کاروائیاں کرنے کے بعد ساواک کی تعقیب کی  وجہ سے یہ دوگروہ بهی ٹهنڈے پڑ گئے اور پارٹی لیڈروں کی گرفتاری سے پارٹی کا شیراز۔ بکهر گیا اور چند عہدیداروں کے علاوہ جو پهانسی چڑه گئے دیگر اراکین گرفتار ہوئے ، جو توبہ ناموں پر دستخط کرنے اور شاہی حکومت کے ساته تعاون کرنے کے وعدوں پر موت سے نجات پانے میں کامیاب ہوگئے ۔ ساواک نے ان لوگوں کے ٹی وی انٹریوز نشر کرکے حقیقی مجاہدین کے بارے میں رائے عامہ کو مخدوش کرنے کی سعی کی لیکن ان کے انٹریوز اور سنسنی خیز انکشافات سے ، ان کے اپنے اخلاقی اور نظریاتی انحرافات اور پارٹی کے اندر موجود خونیں اختلافات سے پردہ اٹه گیا ۔ بعض منحرف عناصر جیلوں ،میں امام خمینیؒ کی تحریک کے حامی سیاسی قیدیوں کے درمیان ساواک کے حق میں جاسوسی کرنے پر مامور تهے۔

ہیئتهائے مؤتلفہ اسلامی ( متحدہ اسلامی تنظیمیں ) اور حزب ملل  اسلامی ( اسلامی اقوام پارٹی ) کے علاوہ بعض دیگر اسلامی گروہ بهی امام خمینیؒ کی تحریک کی حمایت کرتے ہوئے مسلح جد وجہد میں مصروف تهے ، ان میں وہ سات [14]گروہ قابل ذکر ہیں جو آگے چل کر ’’سازمان مجاہدین انقلاب اسلامی ‘‘ کے نام سے ایک پارٹی کی شکل اختیار کر گئے ۔ اس کے علاوہ شہید علی اندرزگو کی قیادت میں علماکا ایک گروپ بهی نمایاں ہے ۔

۵جون ۱۹۶۳ کی تحریک کے بعد انجمن حجتیہ کے نام سے بهی ایک گروہ سرگرم عمل ہوگیا جس کا قیام اس تاریخ سے پہلے عمل میں آیاتها، اس انجمن کا اصل مقصد ایران میں بہائیت کے ساته فکری مقابلہ تها ۔ اغراض و مقاصد کے اعتبار سے انجمن حجتیہ شاہی حکومت کی مخالف تهی کیونکہ حکومت بہائیوں کی پشت پناہی کرتی تهی لیکن انجمن اور اس کے رہنماؤں کی گروہی ماہیت ایسی نہیں تهی بلکہ انجمن کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے سیاست میں حصّہ نہ لینے کی شرط مقرر تهی جو حکومتی پالیسی سے موافق تهی ، کیونکہ اس کے تحت پر جوش مذہبی نظریات کے حامل افراد کی توانائیاں ایران میں برائیوں کی اصل علت یعنی پٹهو شاہی حکومت کو جڑ سے اکهاڑ پهینکنے کیلئے صرف ہونے  کے بجائے اس کی معلول (گندی سیات ) کے ساته وہ بهی غیر مؤثر طریقے سے لڑتے ہوئے ضائع ہوسکتی تهیں ، اسی لئے انجمن حجتیہ ساواک کی طرف سے معمولی مزاحمت کے بغیر بلکہ بعض مواقع پر اس کی وسیع پشت پناہی کے ساته اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکهتی تهی[15] امام خمینیؒ نے تحریک کے مختلف مراحل بالخصوص اسلامی انقلاب کی کامیابی کے نزدیک بعض عناصر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے خفیہ رازوں سے پردہ اٹهایا، اسی لئے انجمن حجتیہ کے بہت سے ارکان ، اس سے علیحدہ ہو کر امام ؒ کی تحریک میں شامل ہوگئے ۔ مذکورہ انجمن بہائیت کا مقابلہ تعلیمی اور ثقافتی میدان میں کرتی تهی جبکہ گذشتہ چند دہائیوں میں بہائیت ایران اور دنیا کے مختلف علاقوں میں ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے سرگرم عمل تهی ،اسے اسرائیل کی پشت پناہی اور امریکہ میں مقیم صہیونی قوتوں کی حمایت حاصل تهی ، لہذابہائیت سے اصل مقابلہ بهی انہی خطوط پر استوار ہونا چاہئے تها ۔

۱۹۶۹م  کے بعد استاد شہید آیۃ اللہ مطہریؒ ، شہیدآیۃ اللہ ڈاکٹر علی مفتح ، شہید حجت الاسلام ڈاکٹر باہنر ، انجینئر بازرگان اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسی شخصیات کے سلسلہ خطاب اور حلقہ ہائے درس کی وجہ سے تہران کے مذہبی مراکز مثلا مسجد قبا ، مسجد ہدایت ، کانون توحید اور بالخصوص حسینیہ ارشاد بڑی تعداد میں مذہبی خیالات رکهنے والے دانشوروں اور کالج یونیورسٹی کے مسلم عناصر  کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔ آ یت اللہ شہید مطہری ؒ ایسے بلند پایہ فلسفی اور فقیہ تهے جنہوں نے کئی برس تک امام خمینیؒ اورعلامہ طباطبائی کے دروس سے استفادہ کیا ۔آیت اللہ شہید مطہری ؒ نے تہران منتقلی کے بعد جوان نسل کو عصری تقاضوںکے مطابق اسلام کی نظریاتی بنیادوں سے روشناس کرانے اور انہیں الحادی اور انحرافی مکاتب فکر کے گمراہ کن نظریات سے آگاہ کرنے کیلئے کمر ہمت بانده لی ، شہید آیت اللہ ڈاکٹر مفتح اور حجت الاسلام شہید ڈاکٹر باہنر نے بهی یہی روش اپنا رکهی تهی جو عالم دین ہونے کے ساته کالج یونیورسٹی کی سطح پر بهی مانے ہوئے دانشور تهے ۔ امام خمینیؒ نے آیت اللہ شہید مطہریؒ کی شہادت کے بعد بلا استثنا اس فرض شناس مفکر کی تمام تصانیف کو مفید قرار دیتے ہوئے آپؒ کی گرانقدر اور وسیع خدامت کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔

طرز تحریر اور ادیبانہ زبان کے علاوہ ڈاکٹر علی شریعتی کی   تصانیف کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ایران کے مذہبی معاشرے کے دینی ، تاریخی اورمعاشرتی پہلوؤں کو تنقیدی اور معتدل نگاہ سے پیش کیاہے ، کیونکہ ان حالات میں ملک کی جوان نسل میں ایسی مباحث کی کمی بخوبی محسوس کی جارہی تهی ۔

ساواک اور ڈاکٹر شریعتی کے درمیان تبادلہ ہونے والی دستاویزات ، خطوط اور بحث و مباحثہ کے منصفانہ جائز ے سے جو حال ہی میں شائع ہوگئی ہیں[16] پختہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ ساواک نے کئی سال تک ڈاکٹر شریعتی کی سرگرمیوں پر اس خیال میں پابندی نہیں لگائی تهی کہ ان کی تصانیف کی طرف رجحان جوان نسل کے بائیں بازو کے کمیونسٹ نظریات کی طرف مائل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بننے کے علاوہ ایران کے روایتی علماء کے خلاف ڈاکٹر شریعتی کی تند وتیز اور مسلسل تنقید مذہبی عناصر کے محاذ میںشکاف پیدا کر سکتی ہے ، لیکن ۱۹۷۳ ء  میں شاہی پولیس ساواک حسینیہ ارشاد کوبند کرکے ڈاکٹر شریعتی کو گرفتار کرنے پر مجبور ہوئی۔

حسینیہ ارشاد کی سرگرمیوں سے علیحدگی اختیار کرنے کے سلسلے میں آیت اللہ شہید مطہری ؒکے دستیاب خطوط اور دیگر تحریروں سے یہ حقیقت کهل کر سامنے آتی ہے کہ شہید مطہریؒ کی رائے یہ تهی کہ ثقافتی اور معاشرتی انقلاب برپا کرنے کے لئے وحی الٰہی اور خالص دینی فکر کی بنیادوں پر آگے بڑهنا چاہئے اور مذہبی امور کے بارے میں ان تجدد پسندانہ نظریات اور انقلابی تجزئیے اگر مندرجہ بالا بنیادوں پر استوار نہ ہوں اور ان میں دینی احکام کے فہم و استنباط کے لئے ضروری مہارت کے طریقوں کو نظر اندازکیاگیاجائے تو وہ  ناپائدار ثابت ہوں گے ۔ اس کے علاوہ یہ نظریات طویل دورانئے میں دینی نظریات کے ساته ، ناہم آہنگ ہو کر غیر آسمانی افکار کے خلط ملط ہونے کی راہ ہموار کرتے ہوئے ان میں مغرب کے فلسفی اور عمرانی نظریات کے نفوذ کاباعث بن سکتے ہیں ۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ، افراط پسند گروہوں سے تعلق رکهنے والے کچه لوگ ڈاکٹر شریعتی کی حمایت کے بہانے پر علمائے  کرام اور انقلاب کی قیادت کے خلاف محاذ آرا ہوگئے ۔ ڈاکٹر شریعتی کی تصانیف کے بارے میں کسی قسم کا فیصلہ کرنا علیحدہ موضوع ہے ، لیکن ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ بہت سے افراد نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کرکے اسلامی اور سیاسی مسائل کی طرف توجہ مبذول کی ، بلکہ وہ اسلامی انقلاب کے حامیوں کی صف میں شامل ہو کر بهر پور کردار داکرنے لگے ۔ مذکورہ دلائل کو مدنظر رکهتے ہوئے ڈاکٹر شریعتی کے کردار اور شخصیت کے بارے میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں ۔ کچه لوگ ان کو ( شاہی ) حکومت کے ثقافتی مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال ہونے والے ایجنٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں ، بہت سے لوگ انہیں ایک مسلمان اور انقلابی مفکر کی حیثیت سے جانتے ہیں جبکہ ڈاکٹر شریعتی کی آخری یادداشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک طبقہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ انہوں نے خود اپنی کتابوں پر نظر ثانی کے علاوہ ان میں موجود سطحی مفاہیم اور غلط تشریحات کا حذف کرنے یا ان میں اصلاح کی ضرورت پر تاکید کی تهی ، تاہم اس موضوع پر امام خمینیؒ نے نہایت علقمندانہ کلیہ بیان فرمایا ہے جس پر آپؒ رحلت تک قائم رہے۔امام نے اپنے بہت سے خطابات اور بیانات کے ذریعے شیعہ علما ء کی جہاد میں سبقت کی وضاحت کرتے ہوئے تاریخ بهر کے بڑے بڑے شیعہ علماء کا دفاع کرنے کے ساته ساته اس سلسلے میں پائے جانے والے بعض شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے ۔

غیر ممالک میں قائم طلبہ کی اسلامی انجمنوں کے نام خطوط میں آپؒ نے باربار اسلام سے متعلق سرسری اور غیر ماہرانہ معلومات کے بارے میں خبر دار کیاہے ۔

امام خمینیؒ نے مسلم دانشوروں اور مفکروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساته انہیں رجعت پسند اورنام نہاد علماء کے خطرات سے آگاہ فرماتے ہوئے اختلافی مسائل کو چهیڑ نے اور مختلف اشخاص کے نام پر محاذ آرائی کرنے کو انقلاب کے مفادات کے منافی قرار دیا ہے ۔

اسلامی انقلاب کا عروج اور عوام کی بیداری

امام خمینیؒ دنیا اور ایران میں رونما ہوانے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لیتے رہتے تهے ، اسی لئے موقع غنیمت جان کر جولائی ۱۹۷۷  میں ایک پیغام کے ذریعے آپؒ نے فرمایا: اس وقت ملکی اور غیر ملکی حالات کے پیش نظر جبکہ حکومت کے جرائم عالمی پریس میں شائع ہو گئے ہیں ایک ایسا موقع ہاته آیا ہے جس سے فائدہ اٹهاتے ہوئے ثقافتی حلقوں ، محب وطن طبقوں ، غیر ممالک میں مقیم اور اندرون ملک کے طلبہ و طالبات اور اسلامی انجمنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہوں سے آشکارا اٹه کهڑے ہوجائیں ‘‘ پیغام میں مزید کہا گیاتها : کروڑوں مسلمانوں کی پرواکئے بغیر ان کی تقدیر پر مٹهی بهر اوباشوں کو مسلط کرنا ، ایران کی غیر قانونی اور اسرائیل کی پٹهو حکومتوں کی طرف سے مسلمانوں کے حقوق غصب کرنا ، ان کی آزادی چهین کر انکے ساته قرون وسطائی دور کی طرح کا سلوک روا رکهنا ایسے جرائم ہیں جو امریکی صدور کے ریکارڈ میں درج کئے جائیں گے [17]‘‘ ۔

۲۳ ۱کتوبر۱۹۷۷ کو آیۃ اللہ حاج آقامصطفی خمینیؒ نے جام شہادت نوش کیا ، اس موقع پر ایران میں منعقد ہونے والی شاندار ( تعزیتی) تقریبات حوزہ ہائے علمیہ کی دوبارہ بیداری اور ایران کے مذہبی معاشرے کی تحریک کا از سر نو آغاز ثابت ہوئیں ۔ا مام خمینیؒ نے حیران کن انداز میںا پنے فرزند کی شاہدت کو اللہ تعالی کی غیبی رحمت قرار دیا، شاہی حکومت نے انتقام کی آگ بجهانے کیلئے روزنامہ اطلاعات کے ایک مقالے میں اما م کی شان میں توہین کی ؛ اس مقالے کے خلاف شدید ردعمل کااظہار کرتے ہوئے  ۹ جنوری ۱۹۷۸  کو قم شہر میں ایک احتجاجی مہم شروع ہوئی جس کے دوران بعض انقلابی طلبہ کا خون بہایا گیا۔ اس طرح ایک بار پهر تحریک کا آغاز قم سے ہوا جو  ۵ جون ۱۹۶۳ کی تحریک سے بالکل مختلف حالات میں قلیل مدت کے دوران پورے ملک کے اندر پهیل گئی ۔ تبریز ، یزد ، جہرم ، اصفہان ، اور تہران میں اس تحریک کے شہدا کے سوئم ، ہفتم اور چہلم کو موقعوں پر پزید فسادات ہوئے ، اس دوران امام خمینیؒ کے عقیدتمند نے آپؒ کے پیغامات اور تقریروں کی کیسٹیں رکارڈ کاکراکے ملک بهر میں تقسیم کرتے رہے جن میں امام ؒ ، عوام کو دعوت دیتے تهے کہ وہ بادشاہت کی بنیادوں کو ڈهادینے اور اسلامی حکومت کی تشکیل تک استقامت کے ساته تحریک جاری رکهیں۔[18]  عوام کے قتل عام کے با وجود شاہ ایرن بهڑکی ہوئی آگ کے شعلوں کو بجهانہ سکا ۔ شاہ کی سیاسی چالیں اور فوجی ہتهکنڈے عوام کے غم وغصہ کی لہر کو کم کرنے میں معمولی اثر چهوڑ نے سے پہلے ہی ، امام خمینیؒ کی طرف سے پردہ چاک کرنے والے بیانات اور جہادی منشور کے اجراء کے ساته ناکام ہوجا تے تهے ۔

حکومت نے تیرہ سال تک شاہی کابینہ میںوزیراعظم کے عہدے فائز رہنے والے ہودیا کی جگہ ایک مغرب زدہ دانشور جمشید آموزگار کو وزیر اعظم بناکر بحران کو حل کرنے کی ناکام سعی کی ، اس کے بعد ایران میں فری مشیزی کے پرانے سامراجی پٹهو جعفر شریف امامی نے وزیر اعظم بن کر ’’ قومی مصالحتی حکومت ‘‘ کے عنوان سے کابینہ تشکیل دی ۔ امامی نے قم میں آقائے شریعتمداری سے ملاقات کی ، جن کا نام اس وقت کے بدلتے ہوئے جدید ترین حالات میں ایران کے ان مذہبی رہنماؤں کے ضمن میں لیا جاتا تها جنہیں شاہ حکومت کی حمایت حاصل تهی ، لیکن یہ ملا قات اور امامی کے دیگر فریب کارانہ اقدامات عوامی جدوجہد کی راہ نہ روک سکے ۔ شریف امامی کے دور میں ہی ۷ ستمبر۱۹۷۸ کو تہران کے میدان شہداء ( ژالہ) میں فوج نے عوام کا سفاکانہ قتل عام کیا اور سرکاری طورپر ایران کے ۱۱ شہروں میں نامعلوم مدت تک  مارشل لاء نافذ کیا گیا ، لیکن امام ؒ کے پیغامات ملنے کے بعد    مارشل لاء کی پروا کئے بغیر عوام دن رات مظاہرے جاری رکهتے تهے  ہر آں ہر گهڑی اللہ اکبر، مرگ بر شاہ ( شاہ مردہ باد) اور درود برخمینی کی صدائیں گونجتی رہتیں ، اس کے ساته ساته گلی کوچوں سے مشین گنوں کی فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی تهیں ۔

امام خمینیؒ ابتدا سے ہی اپنی تحریک کی رہنمائی اس آیۂ شریفہ کی بنیاد پرکرتے رہے ’’ انّ اللّٰہ لایغیر مابقوم حتی یغیر و ا مابانفسهم ‘‘ ( اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے ) امام ؒ پہلے ثقافتی تبدیلی پیداکرنے ، اسکے بعد عوام کے ذریعے انقلاب برپا کرکے معاشرتی تبدیلیاں پیدا کرنے کی تاکید فرماتے تهے ۔ آپؒ کی رائے یہ تهی کہ جماعتی اور پارلمانی جدوجہد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی ، اس کے علاوہ  آپؒ اس دور کے حالات میں ایران کے اندر عوام کا عتماد حاصل کئے بغیر مسلح جد وجہد کو بهی بے سود سمجهتے تهے ۔ امریکہ کی طرف سے فوجی بغاوت کرا نے کی صورت میں   امام ؒ رضا کارانہ فوجی کاروائیوں اور مسلح جد وجہد کو واحد راہ حل قرار دیتے تهے ۔

اانقلاب اسلامی ایران میں مساجد اور دینی مراکز عوامی تحریک اور اجتماع کے اصل مراکز تهے ۔ عوام کے نعرے عام طور پر دینی تعلیمات اور امام خمینیؒ کی رہنمائیوں پر مبنی ہوتے تهے ۔ ۷۸ ۱۹ ء  میں اسلامی تحریک کے عروج کے دور میں ایران کے اندر متعدد سیاسی پارٹیوں اور تنظٰیموں کو نئی زندگی ملی جو مختلف رجحانات اور نظریات کی حامل تهیں لیکن ان کے حامیوں کی تعداد اتنی کم اور محدود تهی کہ وہ ایرانی قوم کے جہادی عمل کی راہ کو متعین یااس میں تبدیلی پیدا کرنے کیلئے کسی قسم کا مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تهیں بلکہ وہ ہمہ گیر عوامی تحریک کے شدید اور تیز دهارے میں شامل رہنے پر مجبور تهیں ؛ اس وقت اسلامی مقاصد کے حامل اور امام ؒ کے مشن پر یقین رکهنے والے بعض مسلح اور منظم عوامی گروہ بهی سرگرم عمل تهے جن کی مسلح کاروائیاں ایک مستقل تحریکی انداز سے ہٹ کر عوام کی نئی تحریک کی تقویت اور حمایت کیلئے ہوتی تهیں ۔

عوام ہڑتالوں کی اپیل اور ہڑتالوں کے سلسلے کوپهیلانا شاہی حکومت کے خلاف جہادی عمل میں شدت پیدا کرنے کیلئے امام خمینیؒ کے کامیاب طریقوں میں سے ایک طریقہ تها ، یہاں تک کہ شاہی اقتدار کے آخری مہینوں میں ہڑتالوں کا سلسلہ حکومتی ڈهانچوں ، وزارتوں ، سرکاری دفاتر اورفوجی مراکز تک پهیل گیا ، تیل کمپنی ، بینکوں اور حساس سرکاری اداروں کے کارکنوں کی ہڑتال شاہی حکومت کے نحیف جسم پر کاری ضرب ثابت ہوئی ۔

 

 



[1] پاسخ بہ تاریخ ‘‘ ص ۳۶۲ ۔

[2] مندرجہ بالا مأخذ ، ص ۳۶۷ ۔

[3] تہران میں ڈیوٹی ‘‘ جنرل ہوئزر کی یاد داشتین ۔

[4] دیکهئے : ایران میں امریکی اثر ورسوخ ‘‘ ہتهیاروں کی خرید سے متعلق باب ، جاری شدہ بمطابق سرکاری اعداد و شمار ۔ صحیفہ امام  ؒ ،ج۱ ،ص ۳۰۳۔

[5] دیکهئے : ’’ اقتصاد ایران ‘‘ ادارۂ مطالعات تجارتی تحقیقات ، ص ۵۹ ۔صحیفہ امام  ؒ ،ج۱ ، ص ۲۶۲۔ 

[6] بررسی تحلیلی از نہضت امام خمینی  ؒ ‘‘ ج ۲، ص ۲۱۴ ۔

[7]  ’’صحیفہ امام  ؒ ‘‘ ج ۱، ص۲۶۱ ۔

[8] بررسی و تحلیلی از نہضت امام خمینیؒ ، ج ۲ ص ۲۳۲۔

[9] ’’ صحیفہ امام  ؒ‘‘ ج ، ۱ ،ص۴۲۰۔ ۴۲۲۔

[10] بر رسی تحلیلی از نہضت امام خمینیؒ ‘‘ ج ۲ ص ۴۵۸ ، رونامہ ’’ الجمہوریۃ ‘‘ بغداد ، شمارہ ۵۸۸ مورخہ ۱ / ۸ / ۱۳۴۸ ه ش (۲۳ / ۱۰ / ۱۹۶۹ء ) کے حوالے سے ۔

[11] ’’ صحیفہ امام  ؒ ‘‘ ج ۱ ص ۱۹۹۔

[12] جزنی گروہ اور احمد زادہ گروپ ۔

[13] سازمان مجاہدین خلق کے اراکین کی تعداد ۱۳۴۸ ه ش کے اواخر (۱۹۷۰ء  کے اوائل) میں یعنی تنظیم کے باقاعدہ قیام کے ۴ سال بعد ۵۰افراد تهی ۔

دیکهئے: ’’ تحلیلی بر سازمان مجاہدین خلق ایران ‘‘ ص ۳۶ ۔

[14] امت واحدہ ، توحید بد ر، توحیدی صف ، فلاح ، فلق ، منصورون ،۔  موحدین دیکهئے : ’’سازمان مجاہدین انقلاب اسلامی کوقائم کرنے والے گرہوں کی مختصر تاریخ ۔

[15] دیکهئے : ’’ درشناخت حزب قاعدین زمان ‘‘ نشر دانش اسلامی ، قم ۔

[16] ’’ بررسی و تحلیلی از نہضت امام خمینی  ؒ ‘‘ ج ۳ ۔

[17] ’’ صحیفہ امام  ؒ ‘‘ ج ۳ ،ص ۷۔

[18] ۱۹ دیماہ ۱۳۵۶ سے ۲۲ بہمن ۱۳۵۷ ه ش ( ۹ جنوری ۱۹۷۷ سے ۱۱فروری ۱۹۷۹ء ) کو شاہ ایران کی بادشاہت کی سرنگونی تک تحریک کی روداد کا سفر اور اسی طرح اس عرصے میں امام خمینی ؒ کے مواقف اور قیادت کے متعلق تفصیلات کتاب ’’ کوثر ۔انقلاب اسلامی کے واقعات کی تفصیل ‘‘ کی جلد یکم تا سوئم میں دیکهئے ۔

ای میل کریں