رجب المرجب ۴۰ ۱۳ ه ق میں نوروز کے دن ا ٓیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدیؒ نے (اراک سے) قم کی طرف ہجرت کی اس کے تهوڑے ہی عر صے کے بعد امام خمینیؒ ؒ نے بهی حوزہ علمیہ قم روا نہ ہو کر وہاں کے اسا تذہ کے ہاں دینی نصاب میں شامل تعلیمی مراحل کو تیزی کے ساته طے کیا ۔ آپ نے علم معانی وبیان میں مرحوم آ قا میرزا محمد علی ادیب تہرانی کے ہاں کتاب مطوّل پڑهی ،سطح ( متون ) کے درس کا کچه حصّہ مرحوم آ یت اللہ سید محمد تقی خوانساری اور زیادہ تر مرحوم آیۃ اللہ سید علی یثربی کا شانی کے ہاں مکمل کی،اس کے بعد حوزہ علمیہ قم کے بانی آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدیؒ کے فقہ اور اصول فقہ کے درسہائے خارج (فری لیکچرز) میں شرکت کرنے گے ـ
امام خمینیؒ کی حساس اور جستجو کی عادی فطرت صرف عربی ادب،فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم کے حصول تک منحصر نہیں رہ سکتی تهی،چنانچہ آپ ؒ دیگر علمی شعبوں کی طرف بهی مائل ہوئے اور مذکورہ فقہاء و مجتہدین کے نزدیک فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے علا وہ ا;,,,ٓپ ؒ نے مندرجہ ذیل اساتذہ سے دیگر علوم بهی حا صل کئے : ریاضیات ، علم ہیئت اور فلسفہ کی تعلیم مرحوم حاج سید ابولحسن رفیعی قزوینی اور مرحوم آ قا میر زا علی اکبر حکمی یزدی سے حاصل کی ، مؤخر الذکر استاد سے آپ ؒ نے معنوی اور عرفانی علوم بهی حاصل کئے مرحوم آقا شیخ محمد رضا مسجد شاہی اصفہانی کے ہاں امام ؒ نے علم عروض و قوا فی ( شاعری ) کے علاوہ اسلامی اور مغربی فلسفہ پڑها ، علم اخلاقیات اور عرفان و سلوک کے حصول کے لئے آپ ؒ نے مرحوم آیۃ اللہ حاج میرزا جواد ملکی تبریزی کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا اور چه ماہ تک آپ ؒ مرحوم آ یۃا للہ آقا میرزا محمد علی شاہ آ بادی کے ہاں نظریاتی اور عملی عرفان و سلوک کی تعلیم حا صل کرنے میں مصروف رہے ۔
آیت اللہ العظمیٰ حائری یزدی ؒ کی رحلت کے بعد آ یت اللہ العظمیٰ بروجردی ؒ کو حوزۂ علمیہ قم کی قیادت سنبها لنے پر آ مادہ کرنے کے لئے امام خمینیؒ ؒ اور حوزۂ علمیہ قم کے بعض دیگر مجتہدین کی طرف سے کی جانے والی محنت رنگ لائی اور آ یت اللہ العظمیٰ بروجردیؒ قم روانہ ہوئے ۔ اس وقت امام خمینیؒ فقہ ، اصول فقہ ، فلسفہ ، عرفان وسلوک اور اخلاقیات کے شعبوں میں ایک صاحب نظر استاد اور مجتہد کے طور پر جانے پہچانے جاتے تهے اور آ پ ؒ کا زہد اور تواضع ، عبادت اور تقویٰ ہر خا ص و عام کی زبان پر تها ، کئی سالوں کے جہادبالنفس ، زرعی ریاضتوں اور عرفانی اصول پر کاربند رہنے کی وجہ سے امام ؒ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جلوہ گر ہونے والے امام اعلیٰ صفات کے علاوہ آ پ ؒ کے اپنے مخصوص سیاسی اصول تهے ، آپ کواس نظر ئے پر بهی مکمل یقین تهاکہ خطرات بهر پور اس پر آشوب دورمیں عوام کے لئے امید کی واحد کرن دینی درسگاہوں کے مقاصد، علمائے کرام اور دینی قیادت کی طاقت کا تحفظ ہے ، انہی اسباب وعلل کی بنا پر اپنی تمامتر صلاحیتوں اور ( دیگر مجتہدیوں سے ) مختلف نطقہ نگاہ کے حامل ہونے کے با وجود قم کی نو بنیاد دینی درسگاہ کے استحکام کے لئے آیت اللہ العظمی حائری یزدیؒ اور آ یۃ ا للہ العظمیٰ بروجردی ؒ کی قیادت کے پورے عرصے میں آپ ؒ ایک دلسوز اور ہمدردحامی کی حیثیت سے اپنے علم و فضل اور جد وجہد کے ذریعے سعی بلیغ فرماتے رہے ۔
آ یت اللہ العظمیٰ بروجردیؒ کی رحلت کے بعد بهی طلبہ اور علماء وفضلا ء کے علاوہ اسلامی معاشرے کے دیگر طبقات کی جانب سے مرجع تقلید کی حیثیت سے آپ کی طرف وسیع پیمانے پر رجوع کے باوجود امام ؒ نے ہر قسم کے ایسے اقدام سے شد ت کے ساته اجتناب کیا جس مفاد پرستی اور مقام و منصب کی خواہش کا معمولی شائبہ بهی پایاجاتاہو ، نہ صرف یہ بلکہ آپ ؒ اپنے دوستوں کو ہمیشہ اس طرح کی باتوں سے دور رہنے کی تلقین فرماتے رہتے تهے ۔
جب اسلامی معاشرے کے آگاہ و بیدار افراد اسلام کے سچے علمبردار کے طور پر امام ؒ کی شمع وجود کے اردگرد جمع ہو گئے اور تقویٰ اور علم و آ گاہی کی وجہ سے انہوں نے اپنی امنگوں کو آپ ؒ کی ذات میں پورا ہوتے دیکها تو اس وقت بهی امام ؒ کے طور طریقوں میں ذرہ بهر تبدیلی نہیں آئی اور یہ قوہل ہمیشہ آپ ؒ کا ورد زباں رہتا تها کہ : ’’میں آپنے آپ کو اسلام اور قوم کا خادم اور سپاہی سمجهتا ہوں[1]۔
یکم فروری ۷۹ ۱۹ء کو اپنے قائد کو خوش آمدید کہنے کے لئے جمع ہونے والے کئی ملین ایرانی عوام امام ؒ کی راہوں میں پلکیں بچها کر تاریخ کے ایک عظیمترین استقبالی جلوس میں شرکت کر رہے تهے اس وقت ایک ( غیر ملکی ) صحافی نے بغیر کسی تمہید کے آپ ؒ سے سوال کیا کہ آپ اس ساری شان وشوکت کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور پندرہ برس کے بعد اپنے ملک واپس آئے ہیں ،اس وقت آپ کے تاثرات کیا ہیں ؟
لیکن آپ وہی عظیم شخص ہیں جس نے اس صحافی کے جواب میں فرمایا : ـ’’ کچه بهی نہیں ! ‘‘ یہ جواب اس صحافی کے لئے غیر متوقع تها ، کیونکہ وہ سوچ رہا تها کہ دیگر اقتدار پسند سیاسی رہنماؤں کی طرح جو ایسے جذباتی مو قعوں پر اپنے آپ سے باہر ہوکر پهولے نہیں سماتے ، امام ؒ بهی ایسے ہی جذ بات کا اظہار فرمائیں گے ، لیکن جس قسم کا جواب اسے ملا تها ، اس سے یہ حقیقت کهل کر سامنے آگئی کہ خمینیؒکی بات ہی کچه اور ہے !
واقعا جیساکہ آپ ؒ بارہاآپ فرماتے تهے صرف رضا ئے خالق کاحصول اور اپنی شرعی ذمہ داری اور فرض نبهانے کو ہر قسم کے رویوں اور حرکتوں کا معیار قرار دیتے تهے ۔ آپ ؒ کی رائے یہ تهی کہ اگر عمل اورجد وجہد خداکے لئے ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان قید وبندیا جلا وطنی کی حالت میں ہو یا طاقت اور اقتدار کی اعلیٰ منزل پر فائز ہو ْ بنیادی طور پر امام ؒ اس سے چند عشرے پہلے ہی عرفان وسلوک کی عملی راہوں پر گامزن ہو کر دنیا و مافیہا کو خیرباد کہتے ہوئے محبوب حقیقی کے وصال اور فنانی اللہ کی منزل پر پہنچ چکے تهے اور شاید اس صحافی کے جواب کی سب سے خوبصورت تعبیرامام خمینیؒ کے اپنے اس شعر میں مضمر ہے جس میں آپ نے فرمایاہے :
بگزیدہ خرابات و گسستہ زہمہ خلق دل بستہ بہ پیش آمد تقدیر ودگر ہیچ
ترجمہ:
رخ زمانے سے پهرایا ، کیا میخاہ پسند دل مر بستہ بہ تقدیر ہے اور کچه بهی نہیں
حوزہ علمیہ قم میں قیام کے دوران حضرت امام خمینیؒ ؒ نے مدرسۂ فیضیہ ، مسجد اعظم ، مسجد محمدیہ ، مدرسۂ حاج ملا صادق، مسجد سلماسی وغیرہ مقامات پر فقہ ِ اصول فقہ ، فلسفہ ، عرفان و سلوک اور اسلامی اخلاقیات کے متعدد سلسلہ ہائے درس دیئے ۔ حوزۂ علمیہ نجف میں بهی آپ نے ۱۴ سال تک مسجد شیخ مر تضی ٰ انصاریؒ میں علوم اہل بیت ؑ اور فقہ کی اعلی ترین سطح پر تدریس کی ، نجف ہی میں آپؒ نے ولایت فقیہ کے درسی سلسلے میں پہلی بار اسلامی حکومت کے نظریاتی اصول بیان فرمائے ۔
آپ ؒ کے شاگردوں کا کہناہے کہ امام ؒ کا حلقہ درس حوزۂ علمیہ کے معتبر حلقوں میں شمار ہو تاتها ، حوزۂ علمیہ قم کے بعض تعلیمی سالوں کے دوران امام ؒ کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرنے والوں کی تعداد ۱۲۰۰ تک پہنچتی تهی جن میں بیسیوں مسلم اور معروف مجتہدین بهی شامل ہو تے تهے جو امام ؒ کے مکتب فقہ و اصول سے استفادہ کرنے کے لئے حاضر ہوتے تهے ۔ سینکڑوں بلکہ تعلیمی سالوں کی طوالت کو مدنظر رکهتے ہوئے ہزاروں علماء اور ذہین و فطین دانشوروں کی تربیت امام خمینیؒ کی چند سالہ تدریسی کاوشوں کا پر فیض ثمر ہے ، ان علماء کرام میں سے ہر ایک آج کے دور میں حوزۂ علمیہ قم اور دیگر دینی مراکز کے تشنگان علوم دین کو سیراب کرنے والے نامور اور مستند مجتہدین، فقہاء اور عرفاء میں شمار ہوتا ہے ۔ شہید استاد آیۃاللہ مطہریؒ اور شہیدمظلوم آیۃ اللہ ڈاکٹر بہشتی ؒ جیسے مفکرین کو بهی یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے کئی برس تک اس عارف کامل کے سر چشمۂ فیض سے استفادہ کیاہے۔آج اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے سائے میں مملکت کے کلیدی عہدوں پر فائز علماء کرام امام خمینیؒ کے فقہی اور سیاسی مکتب کے تربیت پانے والے درخشاں چہرے ہیں ۔
مختلف شعبوں میں امام خمینیؒ ؒ کے علمی مکتب کے متعدد پہلوؤں اور خصو صیات پر ہم آ گے چل کر اس کتاب میں روشنی ڈالیں گے اور اس کے اختتام پر امام ؒ کی تمام تصانیف اور کتب کا تعارف بهی پیش کیاجائے گا۔
[1]۔ صحیفہ امامؒ ج ۵ ، ص ۳۵۴۔