امام خمینی (رح) عالمی نظام کی کرداروں کی تعداد پر تاکید کرنے کے بجائے عالمی نظام پر مسلّط نظریات کی تعداد کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ مثال کے طورپر مشرق ومغرب کی دو عالمی طاقتوں پر مبنی دو قطبی نظام کو مسترد کرتے ہوئے کمیونزم اور کیپٹل ازم نظریات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور نوآبادیوں کی سامراجی حکومتوں کے ساتھ وابستگی کو شک کی نظر سے دیکھتے ہوئے اسے ایک غیر مناسب ترکیب قرار دیتے ہیں اور آپ کے نزدیک اس وابستگی کا نتیجہ کمزور ممالک کی دولت کو سامراجی طاقتوں کی جانب سے لوٹنے کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ہم عالمی کمیونزم کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنا امریکہ اور اس کے پیروکار مغربی لٹیروں کے‘‘۔
اسی طرح امام خمینی (رح) ممالک کی سامراجی حکومتوں اور مستضعف حکومتوں کی تقسیم کے ساتھ بڑی طاقتوں کے کمزور حکومتوں پر تسلّط آمیز نظام کی نفی کرتے ہوئے ایسے نظام کو پسندیدہ سمجھتے ہیں جس میں طاقت اقوام کے درمیان بطور مساوی تقسیم کی گئی ہو تاکہ خونخوار، بھیڑیا صفت عالمی طاقتیں کمزور ممالک کی دولت وثروت کو لوٹنے کی ہمت نہ کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (رح) اقوام عالم کی مشترکہ کوششوں پر مبنی ایک ایسے نظام کا خاکہ پیش کرتے ہیں جو سامراجی طاقتوں کی توسیع پسندی، قوموں کے حقوق میں توازن، ایک دوسرے پر عدم برتری اور عدم تسلّط پرمشتمل ہو۔
ایران میں امریکی باشندوں کو سیاسی تحفظ دینے کے قانون کی منظوری کے بارے میں امام خمینی (رح) نے 26/اکتوبر 1963ء میں کیپٹل ازم کے ذلت آمیز قانون کے خلاف ایک زبردست تاریخی اور یادگار تقریر کی جو اسلامی تحریک کی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تقریر امام کی گرفتاری اور جلا وطنی کا باعث ہوئی اور نجف اشرف اور اس کے بعد فرانس میں جلاوطنی کے دوران تحریک کی توسیع اور استمرار کا آغاز قرار پائی۔
کیپٹل ازم قانون کی بنیاد پر امریکی باشندے اگر کسی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں تو ایرانی حکومت، ایران کی سرزمین پر محاکمہ کرنے کا حق نہیں رکھتی بلکہ ایسے لوگوں کا امریکہ میں خود وہاں کے قانون کے مطابق محاکمہ ہوگا۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
"ایک قانون پارلیمنٹ میں لے جایا گیا کہ اس قانون میں امریکہ کے تمام فوجی مشیر اپنے خاندانوں، کارندوں، اپنے اداری کارکنوں اور خدمت گزاروں کے ساتھ ہر کوئی ان سے رابطہ رکھتا ہے، اگر یہ لوگ ایران میں کوئی جرم بھی کریں وہ محفوظ ہیں۔ اگر ایک امریکی نوکر، ایک امریکی باورچی، آپ کے مرجع تقلید کا بیج بازار میں مڈر کردے اور اپنے پیروں تلے کچل دے تو ایران کی پولیس اسے روکنے کا حق نہیں رکھتی!! ایران کی عدالت اس کا محاکمہ نہیں کرسکتی!! اگر باز پرس کرنا ہی ہے تو وہ امریکہ جائے، امریکہ میں ان کے سربراہ ان کی ذمہ داری کی وضاحت کریں گے۔
سابق حکومت نے اس کو منظوری دی تھی اور کسی سے کچھ بتایا نہیں تھا۔ موجودہ حکومت نے اس منظور شدہ لائحہ کو چند دنوں پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا اور اس کے چند دنوں بعد سینٹ میں لے گئے اور نشست و برخاست سے بات کو تمام کردیا اور اس کے بعد سانس تک نہیں لی...
(صحیفہ امام، ج1، ص 415)
اگر کوئی امریکی کتے کو کچل دے تو اس سے بازپرس کریں گے، اگر ایران کا شاہ ایک کتے کو کچل دے تو اس سے بازپرس کریں گے اور چنانچہ ایک امریکی باورچی ایران کے بادشاہ کو کچل دے یا ایران کے مرجع تقلید کو کچل دے تو کوئی اس سے تعرض اور اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا!!