اربعین واک، ظہور امام (علیہ السلام) اور ہماری ذمہ داری

اربعین واک، ظہور امام (علیہ السلام) اور ہماری ذمہ داری

کل اگر دشمن کہے کہ نماز جمعہ میں بم دھماکہ ہوگا، تو کیا ہم نماز چھوڑ دیں گے؟ کیا ہم دین کے ہر ستون کو دشمن کی دھمکی پر قربان کرتے چلے جائیں گے؟

تحریر: مولانا سید عمار حیدر زیدی

 

آج کے دور میں جہاں ہر طرف فتنہ، خوف، پابندیاں اور رکاوٹیں ہیں، وہاں اربعین امام حسینؑ کی واک صرف ایک مذہبی مارچ نہیں بلکہ ایک الٰہی حرکت ہے۔ یہ واک ایک تمہید ہے، ایک مقدمہ ہے ظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا۔ یہ وہ قدم ہیں جو کربلا سے کوفہ، اور کوفہ سے نجف و سامرا ہوتے ہوئے ایک دن مکہ کی بیعت اور کوفہ کے قیام پر منتج ہوں گے۔

لیکن افسوس! آج انہی قدموں کو روکا جا رہا ہے۔ پاکستان میں زمینی راستوں پر پابندی لگا دینا ان غریب زائرین کے لیے دیوار بن گیا ہے جو برسوں انتظار کرتے ہیں، پیسے جمع کرتے ہیں، تاکہ وہ اربعین کی برکتوں سے فیضیاب ہو سکیں۔ کیا صرف امیر ہی عشقِ حسینؑ کے سفر کا حق رکھتے ہیں؟ کیا فقیر کا عشق کم تر ہے؟ اگر سیکیورٹی مسئلہ ہے، تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سیکیورٹی فراہم کرے، نہ کہ عزاداری اور زیارت پر قدغن لگائے۔

کل اگر دشمن کہے کہ نماز جمعہ میں بم دھماکہ ہوگا، تو کیا ہم نماز چھوڑ دیں گے؟ کیا ہم دین کے ہر ستون کو دشمن کی دھمکی پر قربان کرتے چلے جائیں گے؟

تو پھر کیا فرق رہ جائے گا کوفہ کے اُس معاشرے سے جس نے امام حسینؑ کو بلایا، پھر اپنے مال، جان اور خوف کی خاطر امام کو تنہا چھوڑ دیا؟ کیا ہم بھی وہی تاریخ دہرا رہے ہیں؟

خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرما رہا ہے:

اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منكم

تو یہ اطاعت کہاں گئی؟ کیا اولی الامر کی اطاعت صرف زبان سے ہے؟

آج کا دور، آزمائش کا دور ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کوفہ کے شہری جیسا امتحان دے رہا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے سامنے دو راستے ہیں:

1. راحت، مفاد، خوف، اور خاموشی کا راستہ

2. یا پھر عشق، قربانی، حق گوئی اور استقامت کا راستہ اربعین واک کو ختم کرنا دشمن کا ایک نفسیاتی حملہ ہے۔ وہ دیکھ چکا ہے کہ کربلا زندہ ہے، اور جب تک کربلا زندہ ہے، ظلم مردہ ہے! اس لیے وہ اس مرکزِ وحدت، مرکزِ عشق، مرکزِ ظہور کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہماری خاموشی، ہماری بے حسی، ہماری بے عملی دشمن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

یاد رکھو: کل کربلا میں جب امتحان آیا، تو جو بچ گئے وہی امام کے لشکر میں تھے،آج اگر ہم نے خاموشی اختیار کی، تو شاید کل ہمارے پاس بھی کوئی حسینؑ نہ ہو، اور ہم کسی کوفہ میں اپنی بے وفائی پر رو رہے ہوں۔ لہٰذا،یہ وقت ہے کہ آواز بلند کی جائے، یہ وقت ہے کہ غریب زائرین کی حمایت کی جائے، یہ وقت ہے کہ اربعین واک کو ظہور سے جوڑ کر دشمن کے حربے ناکام بنائے جائیں۔ کیونکہ یہ صرف واک نہیں ہے، یہ بیعتِ عشق ہے... اور یہ وہ بیعت ہے جو سیدالشہداء سے امام زمانہ تک جاری ہے۔ اربعین روکی نہیں جا سکتی... کیونکہ عشق کو سرحدوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔یہ راستہ وہی ہے... جو ظہور تک جائے گا۔

ای میل کریں