امام خمینی (رح) پہلوی حکومت کی عورتوں کی حقیقی عظمت و بزرگی کی نابودی میں اس کی تخریبی سیاست کو عورتوں پر ایک نیا ظلم و ستم بتاتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں:
افسوس ہے کہ عورت دو مرحلہ میں مظلوم رہی ہے، ایک جاہلیت کے دور میں، عصر جاہلیت میں عورت مظلوم ہے اور اسلام نے انسان پر احسان کیا اور عورت کو اس مظلومیت سے باہر نکالا جس کاوہ دور جاہلیت میں شکار تھی۔ عصر جاہلیت یا مرحلہ جاہلیت وہ مرحلہ اور عصر تھا کہ عورت کو حیوانات کی طرح بلکہ اس سے بھی بدتر شمار کرتے تھے، عورت عصر جاہلیت میں مظلوم تھی۔ اسلام نے عورت کو جاہلیت کے اس دلدل سے باہر نکالا اور نجات دی۔
ایک دوسرے موقع پر ہمارے ایران میں عورت مظلوم واقع ہوئی اور وہ سابق اور لاحق شاہ کا دور تھا۔ یہ لوگ عورت کی آزادی کے نام پر اس کی انسانی شخصیت اور پہچان کو مٹانا چاہتے تھے۔ اور اس نام پر عورتوں پر ظلم کیا۔ عورت کو اس کے اصلی مقام و شرافت سے نیچے گرایا۔ عورت کو اس کے روحانی اور معنوی مقام کو ایک چیز بنا کر رکھ دیا۔ آزادی کے نام پر مغربی نوازی کی حد یہ ہوگئی کہ ان ضمیر فروش حکام نے عورتوں کو تعلیم و تمدن کے گہوارہ کے بجائے اسے مردوں کی ہوس کا کھلونا بنادیا اور آزادی کے نام پر مرد اور عورت کی آزادی کو چھین لیں۔
آپ ایک دوسرے مقام پراس آزادی کی حقیقت کے بارے میں فرماتے ہیں:
یہ لوگ اس آزادی کے دلدادہ ہیں جسے ہم دوسروں اور سامراج کی آزادی کہتے ہیں، (اسلامی آزادی نہیں ہے انسانی آزادی نہیں ہے خدا کی دی ہوئی آزادی نہیں ہے بلکہ نفسانی خواہشات کے پجاریوں اور ہوا پرستوں کی دی ہوئی آزادی، یہ آزادی نہیں ہے بلکہ آزادی کے نام پر ہوس پرستی کا ذریعہ ہے، عورت کی قدر و قیمت گھٹانے اور اسے بے وقعت بنانے کا وسیلہ ہے) یعنی ان ممالک میں جو غیر سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں، اس قسم کی آزادی کی سوغات لاتے ہیں۔
امام (رح) عورتوں کے حقوق اور ان کے کرامت کے دعویدار مغربی تحریک شناسی کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:
یہ پہلے پہلوی کے زمانہ میں اجرا ہوئی۔ یہ سامراجی اور استعماری تھی۔ اسے جوانوں اور معاشرہ کو غافل بنانے اور معاشرہ کی ترقی اور پیشرفت کو مفلوج اور بے کار کرنے کا سبب جانتے ہیں (کیونکہ جب معاشرہ اور جوان اپنے انسانی اور حقیقی اقدار سے غافل ہوجائے گا تو اغیار کے نوکر جو چاہیں گے، کریں گے اور مغربی طاقتیں ان سے اپنی مرضی کے مطابق ہر کام کرائیں گے)تا کہ استعمال کے لوٹ مار اور غصب کرنے کی بہتر سے بہتر راہ ہموار ہو۔
اس سلسلہ میں امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
ان لوگوں نے جو کام کیا ہے وہ ہماری قوم و ملت کے مفاد کے خلاف ہے، ہمارے ملک کی مصلحتوں کے خلاف ہے۔ جیسے کیپٹلزم اور کسانی کا واقعہ اور دیگر تمام واقعات کی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا بنیادی اور اصلی مقصد لوگوں کو گمراہ اور انسانی راہ سے بھٹکانا تھا۔ ان کا مقصد اصلاح نہیں تھا، بلکہ ان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کسی ملک کو ترقی کرنے نہ دو اسے کسی میدان میں آگے بڑھنے نہ دو۔ لہذا ہم ان کے سیاہ کارناموں سے سمجھتے ہیں کہ جس بے پردگی کی بات رضاخان نے ترکی اور مغرب کی پیروی میں کی ہے وہ ہمارے ملک کی مصلحت کے خلاف تھا۔