مورخہ 8/ شہریور سن 1360 ش کو ایران کے وزیر اعظم کے آفس میں بم دھماکہ ہوا۔ اس بم دھماکہ میں صدر جمہوریہ محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر، شعبہ مالیات کے اعلی افسر عبدالحسین اور دیگر افراد کی موت ہوگئی۔
اس جانگداز واقعہ کے بارے میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ شورای امنیت ملی (سلامتی کونسل) کی میٹنگ ہو رہی تھی کہ دھماکہ ہوگیا۔ آقا مہدوی کنی نقل کرتے ہیں کہ اتوار کے دن قومی سلامتی کونسل کی ملک کے فوجی اور ملکی اعلی عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ ہورہی تھی۔ اس جلسہ میں صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، فوجی اعلی کمانڈر، فوجی اعلی عہدیدار اور دیگر افواج کے افسران و غیرہ شریک تھے اور میں ملک کے وزیر کے عنوان سے اس جلسہ میں شریک ہواتھا۔
آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی 8/ شہریور سن 1360 ش کے اپنی سرگذشت کے بارے میں لکھتے ہیں:علی الاعلان جلسہ تھا جس میں قانون پر تجدید نظر کی بات چل رہی تھی۔ 3/ بجے دن کو جب اس علنی میٹنگ میں جارہا تھا تو میں نے ایک دھماکہ کی آواز سنی۔ معلوم ہوا کہ وزیر اعظم کے دفتر میں ہوا ہے۔ آگ اور دھواں اٹھنے لگا ۔ آفس کی کھڑکی سے دیکھا تو لوگوں نے کہا کہ حکومتی میٹنگ کے کمروں میں آگ لگی ہے۔ فورا خبر ملی کہ سلامتی کونسل کے جلسہ میں ہے اور اس میں آقا رجائی اور باہنر شریک تھے۔ پھر 15/ منٹ کے بعد بہزاد نبوی آئے ، دیکھا کہ بہت غمزدہ اور سکتہ میں ہیں۔ کہا: آقا باہنر اور آقا رجائی شہید ہوگئے اور کچھ لوگ بچ گئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ فوری رصد نہ پہونچنے اور وہاں پر آگ بجھانے کے آمادہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ دو تین منٹ بعد ہی شہید ہوگئے اور اگر تیزی سے کام ہوتا تو یہ لوگ بچ جاتے۔
بہزاد نبوی اس وقت اجرائی امور میں وزیر کے مشاور تھے۔ اس حادثہ کے بارے میں لکھتے ہیں: تقریبا 3/ بج رہے تھے کہ میں نے اپنے کمرہ میں بم دھماکہ کی آواز سنی۔ کھڑکی سے وزیر اعظم آفس کے جن میں جھانکا تو دیکھا کہ ایک کمرہ سے آگ اور دھواں اٹھ رہا ہے۔ وہاں پر موجود دو تین برادران کے ساتھ نچلے طبقے میں آئے تو دیکھا کہ کمرہ میں بم دھماکہ ہوا ہے اور اس کمرہ میں موجود کچھ لوگ معمولی زخم کے ساتھ باہر نکلے۔
علی اکبر ناطق نوری اس حادثہ کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں: ہم لوگ پارلیمنٹ کے نماز خانہ میں تھے کہ اچانک بم پھٹنے کی آواز سنی۔ خلاصہ اسلام اور ایران کا بڑا نقصان ہوگیا۔ یہ لوگ اتنی بری طرح جل گئے تھے کہ شناخت مشکل ہو رہی تھی۔ آقا باہنر اور آقا رجائی کو آگے کے سنہرے دانتوں کی وجہ سے پہچانا گیا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری علامت نہیں رہ گئی تھی۔
8/ شہریور ایران کے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کی شہادت کی تاریخ اور ایران میں ٹروریزم سے مقابلہ کا دن هے۔ ان دونوں عظیم ہستیوں کی زندگی کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایمان کے لحاظ سے قوی، لوگوں کے ہمدرد، عوام سے قریب اور لوگوں کے حقیقی خدمتگذار تھے۔ ان لوگوں نے لوگوں لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے بے لوث اور بے دریغ کوشش کی۔ شہید رجائی اور باہنر خدا پر توکل اور اپنی بصیرت اور دانش سے ایران کی ترقی کی لئے قدم بڑھایا اور یہی چیز دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا بن گئی۔ آخر کار منافقین کے ٹروریسٹ گروہ نے ان دو عظیم ہستیوں کا چراغ زندگی بجھادیا۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
ہماری، ہماری قوم اور مومنین کی منطق قرآن کی منطق ہے۔ "انا للہ و انا الیہ راجعون" اس منطق کا کوئی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جو جماعت اور قوم خود کو خدا سے جانتی ہے اور اپنی ساری چیز خدا کا عطیہ مانتی ہے اور یہاں سے جانے کو اپنے محبوب کی سمت اپنی آرزو جانتی ہے، اس قوم سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ افراد اور شخصیات کا مڈر کرکے اس قوم سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا، کیا اندھے تھے، وہ دیکھیں کہ جب بھی ہم نے شہید دیا ہماری قوم پہلے سے زیادہ منظم ہوتی ہے۔
جس قوم نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے خلاف اور اسلام و خدا کے لئے قیام کیا ہے،اور قرآن کی احکام کی ترقی کے لئے قیام کیا ہے اس ملت کو مڈر کرکے پیچھے ہٹایا نہیں جاسکتا ہے۔ آقا رجائی اور باہنر دونوں ہی ایسے شہید ہیں جو ایک ساتھ فاسد طاقتوں سے مقابلہ کے محاذ پر ایک ساتھ ہم رزم تھے۔ مرحوم شہید رجائی نے مجھ سے کہا کہ 20/ سال سے آقا باہنر کے ساتھ ہوں اور خدا نے چاہا کہ یہ دونوں ایک ساتھ دنیا سے دار جاودانی کی طرف ہجرت کریں۔
ان اندھے دلوں خیال کرتے ہیں کہ چند افراد کے نہ ہونے سے جمہوری اسلامی نابود ہوجائے گی اور حکومت گر جائے گی۔ ان لوگوں کی فکریں اسلامی نہیں ہیں۔ بلکہ مادی افکار ہیں۔ یہ لوگ دنیا کے لئے کام کرتے ہیں اور دنیا کے دلدادہ ہیں۔ ان دنوں عظیم ہستیوں کی شہادت ہمارے لئے بہت ہی شاق اور گراں ہے۔ یہ لوگ رفیق اعلی سے جاملے ہیں۔ وہ لوگ اپنے مطلوب کو پہونچ گئے ہیں۔ ان کے لئے اب ہمارے جیسے مشکلات نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے میں انہیں اور ان کے گھر والوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس طرح کے شہیدوں کو خدا کی راہ میں دیا ہے۔
وہ ملک کسی شخصیت کے مرجانے سے متزلزل ہوجاتا ہے کہ اس کی ملت اور اس کے افراد کسی شخص سے دل لگائے ہوں لیکن جس ملک کا دل خدا سے وابستہ ہے، جس نے خدا کے لئے قیام کیا ہو، جس نے ابتدا ہی سے نہ شرقی نہ غربی بلکہ جمہوری اسلامی کا نعرہ لگایا ہو، اور "اللہ اکبر" کی نعرہ کے ساتھ چھوٹا بڑا، مرد عورت، بوڑھا اور جوان میدان میں آیا ہو، اور آکر اس تحریک اور انقلاب کو برپا کیا ہو ، ہی ہماری قوم اور ملت ہے۔ اس لئے کہ خدا ہے۔ رجائی اور دوسرے اگر نہیں ہیں تو خدا ہے۔ خدا ابتدا ہی سے تمہارے ساتھ تھا کہ تم لوگ میدان مقابلہ میں رہو اور ان شاء اللہ ہو، اور رہوگے۔ خداوند عالم تمہارے مدد کرے گا۔