حضرت سید الساجدین (علیہ السلام) کے نکتۂ نظر سے انسانی حقوق کا مغربی حقوقِ بشر سے موازنہ

حضرت سید الساجدین (علیہ السلام) کے نکتۂ نظر سے انسانی حقوق کا مغربی حقوقِ بشر سے موازنہ

آپ علیہ السلام سے ایک رسالۂ حقوق موسوم بہ "رسالۂ حقوقیہ" تاریخِ انسانی کا عظیم ورثہ بن کر ہمارے پاس موجود ہے

ہم ایک پرانی اور بوسیدہ دروازے والے گھر کے سامنے پہنچے۔ امام علیہ السلام نے اردگرد دیکھا اور پھر دستک دی۔ امام علیہ السلام کے چچا زاد بھائی نے دروازہ کھولا، ہمیں دیکھ کر اس کے دبلے پتلے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ امام علیہ السلام نے اس سے مصافحہ کیا اور پھر رقم اس کے ہاتھ میں رکھ دی۔ میں نے بھی وہ آٹے کی بوری جو ہم لائے تھے، اسے دے دی۔

وہ بولا: آج آپ کچھ دیر سے آئے ہیں، میں کافی دیر سے آپ کا منتظر تھا۔ پھر وہ امام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے نیکوکار شخص! خدا آپ کو جزائے خیر دے! آپ تو اجنبی ہو اور ہماری مدد کرتے ہو لیکن میرا چچا زاد بھائی علی بن حسین، جو امامت کا دعویٰ کرتا ہے اور ہمارے حالات سے بھی واقف ہے، پھر بھی ہماری کوئی خبر نہیں لیتا۔ خدا اسے خیر نہ دے!

میں اس شخص کی بے تکی باتوں کے جواب میں کچھ کہنے سے قاصر تھا، میرا رنگ بدل گیا اور غصے سے دانت بھینچ لیے۔ امام علیہ السلام نے میرا ہاتھ آہستہ سے دبایا تاکہ میں کچھ نہ کہوں۔

وہ شخص دوبارہ امام کا شکریہ ادا کر کے دروازہ بند کر دیتا ہے۔ جب ہم اندھیری گلیوں میں چل رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ امام علیہ السلام اس خود غرض اور ناشکرے شخص کی مدد کیوں کرتے ہیں!؟۔

اس وقت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد رات کی تاریکی میں ایک تھیلا اٹھایا کرتے تھے جو دینار، درہم اور کھانے سے بھرا ہوتا تھا۔ وہ مستحقین کے دروازے پر دستک دیتے اور ان میں سونا چاندی اور کھانا تقسیم کرتے، اپنا چہرہ چھپائے رکھتے تاکہ پہچانے نہ جائیں۔ والد کی وفات کے بعد فقراء کو معلوم ہوا کہ وہ نیکوکار شخص علی بن الحسین تھے۔ (بحارالانوار، ج 46، ص 62)

امامِ چہارم حضرت زین العابدین علیہ السلام نہ صرف انسانوں کے مادی حقوق کی پاسداری فرماتے بلکہ ان کے معنوی حقوق اور عزتِ نفس کی حفاظت پر بھی خصوصی توجہ دیتے۔

آپ علیہ السلام سے ایک رسالۂ حقوق موسوم بہ "رسالۂ حقوقیہ" تاریخِ انسانی کا عظیم ورثہ بن کر ہمارے پاس موجود ہے۔

امام سجاد علیہ السلام کا یہ رسالہ، انسان کی حقیقی فطرت کو مرکزِ توجہ بناتے ہوئے ایسی گہری تعلیمات پیش کرتا ہے جن سے مغربی حقوقِ انسانی کے تصورات کوسوں دور ہیں کیونکہ وہ انسان کی ماہیتِ حقیقی سے بے بہرہ ہیں۔ اگر اس رسالے کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ فراقِ مبانی صاف نظر آتا ہے۔

حقوقِ انسانی کے باب میں ہمارا اور مغرب کا بنیادی اختلاف، انسان کے بارے میں ہمارے تصور کا فرق ہے۔ مغرب انسان کو صرف مادی وجود سمجھتا ہے اور روحانی اقدار کو کوئی حقیقی اہمیت نہیں دیتا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ’اعلامیۂ عالمگیر حقوقِ انسانی‘ کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ ایک ایسا دستور جو مذہب اور دینی اقدار سے بے نیاز ہو کر صرف انسان کی مادی اور حیوانی جبلتوں کو ہی فروغ دیتا ہے۔

آج ہم غزہ میں جو المناک واقعات دیکھ رہے ہیں، وہ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ وہاں انسان کے بنیادی ترین مادی حقوق، حتیٰ کہ "زندہ رہنے کے حق" کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ پھر معنوی حقوق کی بات تو ایک خوابِ پریشاں کی مانند رہ جاتی ہے۔

ای میل کریں