خبررساں ایجنسی شبستان کے مطابق، ایران کے اسلامی انقلاب نے لمحوں میں جنم لیا۔ ان لمحات کو دوبارہ پڑھنا اس بات کا تجزیہ کرنے میں بہت موثر ہو سکتا ہے کہ انقلاب کیوں اور کیسے آیا۔ 7/ بہمن اور 8/ بہمن 1357ش بمطابق 27/ جنوری اور 28/ جنوری 1979ء کے اہم ترین واقعات درج ذیل ہیں:
تہران یونیورسٹی میں علماء نے دھرنا دیا۔ علماء کا یہ اقدام امام کو ملک میں داخلے سے روکنے کے خلاف احتجاج کی وجہ سے تھا۔
27/ جنوری 1979ء میں پیغمبر اسلام (ص) کی یوم وفات اور امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی شہادت کے ساتھ بیک وقت تھا۔ اس موقع پر ملک بھر میں لوگوں نے مظاہرے شروع کر دیے اور امام خمینی (رح) کی آمد کے لیے مہر آباد ہوائی اڈے کو کھولنے کا مطالبہ کیا۔
بختیار نے اعلان کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ آیت اللہ خمینی سے ملنے پیرس جائیں گے۔
اس کے جواب میں امام (رح) نے بختیار کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیا اور تاکید کی: جب تک بختیار استعفیٰ نہیں دے گا تو کوئی ملاقات نہیں ہوگی۔
ایرانی ہوائی اڈوں کی بندش کی وجہ سے حضرت امام خمینی (رہ) کو لے جانے والے طیارے کی پرواز میں تاخیر ہوئی۔
استقبالیہ کی جانب بہشت زہرا کو تقریر کے لیے اور امام خمینی (رہ) کی رہائش گاہ کے لیے رفاہ مدرسہ تیار کیا گیا تھا۔
مارچ کی منزل آزادی چوک سے بہشت زہرا تک تبدیل کر دی گئی۔
حکومت نے خبردار کیا کہ وہ کسی بھی حکومت مخالف مظاہرے کو دبا دیا جائے گا۔ اس دن کی شام کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بختیار کا ایک اعلان نشر ہوا:
"ایک ایرانی محب وطن ہونے کے ناطے جو اپنے آپ کو عظیم قومی اور اسلامی تحریک اور بغاوت کا ایک چھوٹا سا حصہ سمجھتا ہے اور میں اس بات پر خلوص سے یقین رکھتا ہوں کہ آیت اللہ خمینی (رح) کی قیادت اور ان کا نظریہ آج ہمارے مسائل کو حل کر سکتا ہے اور استحکام کا ضامن بن سکتا ہے۔ ملک کی سلامتی کے لیے میں نے ذاتی طور پر اگلے 48 گھنٹوں کے اندر پیرس کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک کے مستقبل کی ذمہ داری حاصل کرنے کے لیے سمجھتا ہوں کہ ملک کی موجودہ صورتحال اور اپنے اعمال کی اطلاع معظم لہ کو دوں گا۔" اس اعلان کو پڑھنے کے بعد صبح چار بجے ریڈیو پر آیت اللہ شہید ڈاکٹر بہشتی نے صبح کے اخبارات سے رابطہ کیا اور انہیں اس سلسلے میں امام کے پیغام کا متن اشاعت کے لیے فراہم کیا:
"جو بات کہی گئی ہے کہ میں شاپور بختیار کو وزیراعظم تسلیم کرتا ہوں وہ جھوٹ ہے، لیکن میں انہیں اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک وہ استعفیٰ نہیں دے دیتے؛ کیونکہ میں انہیں جائز نہیں سمجھتا۔ میری بختیار کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے، اور جس نے کہا کہ میرے اور اس کے درمیان ہونے والی گفتگو تھی، سراسر جھوٹ ہے۔"
28/ جنوری 1979/ء کے واقعات
امام خمینی: میں نے کبھی غیر قانونی حکومتوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے اور نہ کبھی کروں گا۔
بختیار: ہم امام خمینی سے رائے نہیں لیتے۔
آیت اللہ طالقانی: فتح کی صبح قریب ہے۔
قومی اسمبلی میں آبادان کے نمائندے غلام حسین دانشی کو قتل کر دیا گیا۔
بختیار: فوج، حکومت کے مکمل کنٹرول میں ہے۔
کیسنجر: امریکہ کے پاس شاہ سے زیادہ وفادار نگران نہیں تھا۔
آبادان ہوائی اڈے؛ ٹینکوں سے گھرا ہوا ہے۔
مہرآباد ہوائی اڈے پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے حالانکہ ہوائی اڈہ بند تھا اور فوج کی کڑی نگرانی میں تھا۔
پورے ایران میں مظاہرے جاری رہے اور شام کے وقت تہران اور رشت شہر میں پولیس نے گولیاں برسائی اور کچھ کو شہید کر دیا گیا۔
آیت اللہ ڈاکٹر شہید بہشتی اور آیت اللہ شہید استاد مطہری سمیت چالیس سے زیادہ معروف علما نے تہران یونیورسٹی میں غیر معینہ مدت کے لیے دھرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ان کی تعداد 400 تک پہنچ گئی۔ ان کی خواہش تھی کہ ہوائی اڈے کو دوبارہ کھولا جائے اور رہبر انقلاب کی وطن واپسی ہو۔
بعض دوسرے ذرائع نے لکھا ہے: فضائیہ کے بعض اہلکاروں، ہمافران اور فوجی صنعتوں سے وابستہ مشین گن فیکٹری کے ملازمین نے پہلوی حکومت کے خلاف تہران کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ 28/ جنوری کو امام خمینی کی تہران واپسی پھر ملتوی کر دی گئی۔