ڈاکٹر بہشتی کی شہادت

ڈاکٹر بہشتی کی شہادت

حضرت امام خمینی (رح)، شہید بہشتی کے بارے میں فرماتے ہیں: شہید بہشتی کا مظلوم زندگی گذارنا، ان کی شہادت سے زیادہ متاثر کرنے والا ہے

ڈاکٹر بہشتی کی شہادت

 

حضرت امام خمینی (رح) کے اصحاب میں سے ایک، آیت اللہ ڈاکٹر سید محمد حسینی بہشتی تھے۔ یہ ایران کی چیف جسٹس تھے اور انسانیت کے نامور افراد میں سے ایک تھے لیکن 28/ جون 1981ء  کو انقلاب دشمن عناصر نے بے بلاسٹ کراکے آپ کو اور آپ کے ساتھ ایران کی دیگر 72/ عظیم ہستیوں کو شہید کرادیا۔

انسانیت کا خون چوسنے والوں کو پاکیزہ اور عدل و انصاف کے خوگر انسانوں کا وجود برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے سماج اور معاشره کو ترقی کی راہ پر لگانے والے نیک سیرت، پاکیزہ دل اور اچھے کردار کے مالک انسانوں اور خدا کے نیک بندوں کو شہید کرڈالا۔ شہید بہشتی نے دین اور انسانیت کی کافی خدمتیں کی ہیں اور اپنے افکار و اعمال سے معاشرہ کو آگے بڑھانے کے لئے عملی اقدام بھی کیا ہے۔

حضرت امام خمینی (رح)، شہید بہشتی کے بارے میں فرماتے ہیں: شہید بہشتی کا مظلوم زندگی گذارنا، ان کی شہادت سے زیادہ متاثر کرنے والا ہے۔ یہ مظلومیت ان ناروا تہمتوں اور افتراء پردازیوں کی وجہ سے تھی جو دشمنوں نے ان کے ساتھ کی تھی۔

امام (رح) کا خیال تھا کہ شہید بہشتی کے دشمنوں کی یہ خواہش اور سازش تھی کہ انھیں ایک ظالم اور ڈکٹیٹر کے عنوان سے دنیا میں متعارف کرادیں، جبکہ یہ ایسے نهیں تھے۔ "شہید بہشتی مظلوم زندہ رہے اور مظلوم ہی دنیا سے گئے اور یہ دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا تھے"

ایک خداپرست اور خدا کی اطاعت و بندگی کرنے والے، حق و صداقت اور عدل و انصاف کو رائج کرنے میں انتھک کوشش کرنے والے انسان کو زمانہ کے مجرمین اور ظالمین اسی طرح بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن خداوند عالم اپنے مخلص اور نیک بندوں کو ہر آفت و بلا اور دشمنوں کے شر اور ان کی مکاریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کا نام بلند و بالا کرتا ہے۔

آج ایران کی تاریخ میں شہید بہشتی کا نام سنہرے حروف میں لکھا ہوا ہے اور شہید ہونے کے بعد بھی زندہ و تابندہ ہیں۔ پورے ملک میں بوڑھے، جوان، بچے اور مرد و زن سب شہید کو نیک نامی سے جانتے اور یاد کرتے ہیں آپ کی اسلام اور انسانیت کی راہ میں خدمات کا ذکر کرتے اور آپ کے فقدان پر افسوس کرتے ہیں۔

شہید بہشتی اس درجہ محکم ارادہ اور فولادی قوت کے مالک تھے کہ حق کی راہ میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور ہزار تہمتوں اور الزامات کے باوجود اپنے الہی اور انسانی مقاصد کو آگے بڑھاتے رہے اور دشمنوں کی یلغار کی پرواہ کئے بغیر حق کا کلمہ پڑھٹے رہے۔ شہید ایک متقی، مومن، پاکیزہ روح کے مالک اور نیک کردار عالم تھے۔ راہ خدا میں ہر مصیبت برداشت کرنا گوارا کیا لیکن باطل کی کبھی ہاں میں ہاں نہیں ملائی، کلمہ حق اور صدق کی بلندی کے لئے کوشاں رہے۔دینی رہبروں اور علمائے حق کے کارناموں اور زندگی سے ہمیں درس لینا چاہیئے اور ان کے کردار کو نمونہ عمل بناکر میدان عمل میں آگے آنا چاہیئے۔ ظلم اور جھوٹ زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہتے۔ آخر کار حق کو کامیابی ملتی ہی ہے۔ حق نہ دبا ہے اور نہ دبائے دبے گا بلکہ ہمیشہ بلند رہا ہے اور رہے گا۔

خداوند عالم ہم سب کو توفیق دے کہ ہم راہ حق و صدق پر گامزن رہ کر خدا کی رضا میں زندگی بسر کریں۔ آمین۔

ای میل کریں