امام حسن مجتبیؑ کا صلح نامہ کربلا کی تحریک کی بنیاد بنا

امام حسن مجتبیؑ کا صلح نامہ کربلا کی تحریک کی بنیاد بنا

خطیب حرم مطہر امام رضا علیہ السلام، حجۃ الاسلام والمسلمین ناصر رفیعی نے کہا ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کا صلح نامہ دراصل ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے واقعۂ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے لیے زمینہ فراہم کیا

خطیب حرم مطہر امام رضا علیہ السلام، حجۃ الاسلام والمسلمین ناصر رفیعی نے کہا ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کا صلح نامہ دراصل ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے واقعۂ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے لیے زمینہ فراہم کیا۔

مشہد میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال اور امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت سے منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امام حسنؑ کا صلح نامہ تاریخ اسلام کا ایک نہایت حساس اور پیچیدہ موڑ تھا جس کے بعد امت اسلامی کا سیاسی رخ بدل گیا اور خلافت خاندان رسالت سے دور ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد 25 برس تک دیگر حکمرانوں نے اقتدار سنبھالا اور اہل بیتؑ کو حکومت سے دور رکھا۔ تاہم خلیفہ سوم کے قتل کے بعد لوگوں نے خود امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سنبھالنے پر مجبور کیا۔ امام علیؑ کی شہادت کے بعد قیادت امام حسن مجتبیؑ کے سپرد ہوئی، لیکن حالات ایسے تھے کہ صرف سات ماہ کے مختصر دورِ حکومت کے بعد صلح ناگزیر بن گئی۔

 

خطیب حرم امام رضا علیہ السلام نے وضاحت کی کہ امام حسنؑ کو صلح پر مجبور کرنے والے چار بڑے عوامل تھے:

1-  دشمن کا گہرا نفوذ امامؑ کے لشکر اور قریبی ساتھیوں میں۔

2- یاران امامؑ کی سستی اور کمزوری۔

3- عوام کی دنیا طلبی اور بے وفائی۔

4- اثر و رسوخ رکھنے والے خواص کی خاموشی اور اموی پروپیگنڈے کے زیر اثر ان کی بے عملی۔

 

انہوں نے کہا کہ اگر خواص امام حسنؑ کے ساتھ کھڑے رہتے تو صلح کی ضرورت پیش نہ آتی، لیکن جب سب طرف سے بے بسی نے گھیر لیا تو امام حسنؑ نے بصیرت اور دوراندیشی سے صلح کی راہ اختیار کی تاکہ آنے والے زمانے میں امام حسینؑ کی تحریک کے لیے فضا ہموار ہو سکے۔

ای میل کریں