امام خمینی (ره) کی نظر میں نور وظلمت کے حجاب

امام خمینی (ره) کی نظر میں نور وظلمت کے حجاب

غیر خدا کی طرف متوجہ ہونا، انسان کو ظلماتی اور نورانی حجابوں میں گرفتار کردیتا ہے

 تمام دنیاوی امور انسان کو اگر دنیا کی طرف متوجہ کرنے اور خدا سے غافل کرنے کا سبب بنیں  تو یہ ظلماتی حجابوں  کا باعث بنتے ہیں ۔ تمام مادی اجسام کے تمام عالم درحقیقت ظلماتی حجاب ہیں ۔ اگر یہی دنیوی امور خدا کی طرف متوجہ ہونے اور دارآخرت جو کہ ’’دار التشریف‘‘ ہے، تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ بنیں  تو ظلماتی حجاب، نورانی حجابوں  میں  تبدیل ہوجاتے ہیں  اور کمال انقطاع یہ ہے کہ تمام حجابہائے ظلماتی ونورانی چاک کردیئے جائیں  اور انہیں  ہٹا دیا جائے تاکہ خدا کے مہمانخانے میں  جو معدن عظمت ہے، داخل ہوا جاسکے۔ اسی لیے تو ان مناجات میں  خداوند عالم سے دل کی بینائی اور نورانیت کی درخواست کی گئی ہے کہ نورانی حجابوں  کو چاک کر کے معدن عظمت تک پہنچ سکیں  {۔۔۔ حَتّیٰ تَخْرِقَ أبْصارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّور، فَتَصِلَ اِلیٰ مَعْدِنِ الْعَظَمَۃ} (۱) لیکن جس شخص نے ابھی تک ظلماتی حجابوں  کو ہی چاک نہیں  کیا ہو، جس کی پوری توجہ عالم طبیعت ومادہ ہی کی طرف ہو اور معاذ اﷲ جو خدا سے منہ موڑے ہوئے ہو جو سرے ہی سے ماورائے دنیا اور عالم روحانیت سے بے خبر ہے اور جو مکمل طورپر طبیعت اور مادیت کی جانب جھکا ہوا ہے تو اس کا اس طرف خیال ہی نہیں  گیا کہ کبھی وہ اپنا تزکیہ نفس کرے اور اپنی ذات میں  حرکت وقوت اور روحانی ومعنوی طاقت پیدا کرے اور ان تاریک پردوں  کو دور کرے جو اس کے دل پر چھائے ہوئے ہیں  تو اس کا مقام {أسفل السافلین} میں  ہے کہ جو آخری ظلماتی حجاب ہے {ثُمَّ رَدَدْنٰاہُ أسْفَلَ سٰافِلِین} (2)  حالانکہ خدا نے تو انسان کو اعلیٰ ترین مرتبے ومقام میں  پیدا کیا ہے {لَقَدْ خَلَقْنَا الانْسانَ فِي أحْسَنِ تَقْوِیم} (3)  تو جو شخص خواہشات نفس کی پیروی کرے اور جس دن سے اس نے اپنے آپ کو پہچانا ہے وہ طبیعت ومادہ کے تاریک عالم کے سوا کسی طرف متوجہ نہیں  ہوا اور جس نے کبھی سوچا ہی نہیں  کہ ہوسکتا ہے کہ اس آلودہ اور تاریک دنیا کے علاوہ بھی کوئی جگہ اور مقام ہو تو وہ تاریک حجاب میں  گھرا ہوا ہے اور وہ {أخْلَدَ اِلَی الأرْضِ وَاتَّبَعَ ہَواہ} (4) کا مصداق ہے تو ایسا انسان اس دل کے ساتھ جو گناہ سے آلودہ ہو کر تاریک پردوں  میں  چھپا ہوا ہے، اس روح کے ساتھ جو گناہوں  اور نافرمانیوں  کی کثرت کے نتیجے میں  خدا سے دور ہوچکی ہے اور اس ہوس پرستی اور دنیا طلبی کے ساتھ کہ جس نے اس کی عقل اور حقیقت بین چشم کو اندھا  کردیا ہے، ان تاریک حجابوں  سے چھٹکارا حاصل نہیں  کرسکتا چہ جائیکہ وہ نورانی پردوں  کو چاک کر کے انقطاع الی اﷲ کی منزل حاصل کرسکے۔ وہ زیادہ معتقد ہے کہ وہ مقام اولیاء کا منکر نہ ہو، برزخ کے عالموں ، پل صراط، معاد وقیامت، حساب وکتاب، بہشت ودوزخ کو افسانہ نہ بنائے، کیونکہ انسان گناہوں  کے اثر اور دنیا سے وابستگی کے نتیجے میں  تدریجاً ان حقائق کا منکر ہوجاتا ہے اور اولیاء اﷲ کی منزلت سے انکار کرنے لگتا ہے، حالانکہ اولیاء کی منزلت ان چند جملوں  سے زیادہ نہیں  جو اس دعا اور مناجات میں  وارد ہوئی ہے۔

 

۱۔  ’’دل کی آنکھیں  حجاب نور چاک کر کے معدن عظمت تک پہنچ جائیں ‘‘۔ 

2۔  ’’اس کے بعد اسے پست ترین درجوں  کی طرف لوٹا دیا جائے گا‘‘۔   (تین ؍ ۵)

3۔  ’’بے شک انسان کو بہترین تخلیق وصورت میں  پیدا کیا ہے‘‘۔  (تین ؍ ۴)

4۔  ’’اپنے خواہشات کی پیروی کی اور زمین (وپستی) کی طرف رخ کیا‘‘۔  (اعراف ؍ ۱۷۶)

ای میل کریں