حوزہ اور یونیورسٹی معاشرے کا فکری مرکز ہیں:امام خمینی(رہ)
امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی نے حوزہ اور یونیورسٹی کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چند صدیوں تک کوشش کی گئی کہ نوجوان تعلیم یافتہ طبقے یعنی یونیورسٹیوں کے طلباء کو علما (روحانیت) سے الگ کیا جائے اور الگ کر دیا گیا۔ وہ لوگ جنہوں نے مشرقی ممالک کو نگلنے کا منصوبہ بنایا ہے، ان طاقتوں سے خوفزدہ ہیں جو ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ چنانچہ وہ ان طاقتوں کو کسی نہ کسی طریقے سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
معاشرے کا جو دو طاقتور دماغ ہیں، وہ "یونیورسٹی" اور "روحانیت" (علما) ہیں۔ ان دونوں طاقتوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا گیا تاکہ شیطانی منصوبوں کے ذریعے انہیں ایک دوسرے کے مقابل لا کر آپس میں لڑا دیا جائے — اور انہوں نے (دشمنوں نے) اس سے فائدہ بھی اٹھایا۔ جیسے انہوں نے تمام طبقات، مختلف جماعتوں اور مختلف گروہوں کے درمیان طرح طرح کے اختلافات اور رقابتیں پیدا کیں، تاکہ ایسا متحد اور توحیدی معاشرہ قائم نہ ہونے پائے۔ کیونکہ اگر ایک توحیدی معاشرہ بن جائے، تو وہ ان (دشمنوں) کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
آج جبکہ انہوں نے (دشمنوں نے) محسوس کیا اور آنکھوں سے دیکھا کہ ان کی شکست کا سبب یہی اتحاد تھا — یعنی سب کا ایک نعرہ اور ایک راستہ ہونا، جو کہ "اسلام" تھا — تو اب بھی وہ اس کوشش میں ہیں کہ علما کے طبقے کو آپ (نوجوان تعلیم یافتہ طبقے) سے الگ کریں۔
یہ جو صاحب نے ابھی مضمون پڑھا، یہ نوجوان بہت اچھے ہیں، اور دنیا کے دوسرے کنارے سے آئے ہیں تاکہ یہاں بھی خدمت کریں اور وہاں بھی۔ لیکن پروپیگنڈے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ اس حالت میں بھی وہ ایسی بات کرتے ہیں جو علما اور خود ان کے درمیان جدائی پیدا کرتی ہے۔
اب وقت الزام تراشی کا نہیں
آج یہ وقت نہیں کہ آپ کہیں کہ موقع پرست علما ہیں۔ ہماری انقلابی جیلوں میں ایسے عمامہ پوش (علما) موجود ہیں جو قید میں ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو شرمندگی کے باعث اپنا سر تک نہیں اٹھا سکتے، تنہائی کا شکار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ علما معاشرے پر اپنا تسلط جمانا چاہتے ہوں۔
آپ آج بھی جا کر علما کی زندگیوں کی تفتیش کریں، ان مدارس کا جائزہ لیں، علما کے گھروں کو دیکھیں چند ایک کے علاوہ آپ کو نظر آئے گا کہ کیا واقعی یہ وہ لوگ ہیں جو اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں؟ کیا یہ چاہتے ہیں کہ تمام کام ان کے ہاتھ میں ہو؟
نہیں، علما نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے کہ وہ چیز جس نے ہمارے معاشرے کو آگے بڑھایا، وہ ایک عظیم طاقت تھی، اور یہ طاقت اسلام کے ذریعے حاصل ہوئی۔ ہمارے نوجوانوں کے دل میں اسلام تھا، انہیں موت کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ ہمارے نوجوان چاہے میں نجف میں تھا یا یہاں آیا یا اب بھی — مجھ سے آ کر کہتے ہیں: "دعا کریں میں شہید ہو جاؤں،
ایسا روحانی انقلاب اسلام کے بغیر ممکن نہیں۔ علما نے اس حقیقت کو محسوس کیا ہے کہ اسلام ہی وہ طاقت ہے جو دشمن کی قوت کو توڑ سکتی ہے، اور اسلامی احکام ہی ہمارے معاشرے کو آزاد، محفوظ اور خود مختار رکھ سکتے ہیں۔
اسی لیے قانون کو اسلامی ہونا چاہیے، اور قانون دان کو بھی اسلامی ہونا چاہیے۔