امام خمینی (ره)کو مسلمانوں کو بیدار کرنے کی غرض سے سب سے پہلے ایران اور پھر پوری دنیا میں مختلف زنجیروں کو توڑنا تھا جب آپ نجف میں تھے تو اس وقت وہاں کے شیعوں کے درمیان دین او سیاست کی جدائی کے بھرم کو توڑنے پر مجبور ہوئے۔ درحقیقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالم اسلام میں سامراج کے کنٹرول اور نفوذ سے یہ فکر ہر طرف پھیلی تھی اور بنیادی طورپر اسلام اور سیاست کو الگ الگ سمجھا جاتا تھا۔
کتاب ’’ولایت فقیہ‘‘ یا ’’حکومت اسلامی‘‘ کہ جو ان تقاریر پرمشتمل ہے جو امام خمینی (ره) نے نجف کی مسجد شیخ انصاری (ره) میں کیں ، میں آپ نے امپریالیزم، صہیونیزم اور اسلامی ممالک میں ڈکٹیٹر حکومتوں کے عظیم خطروں کو بیان کرنے کے ضمن میں نجف کے حوزہ علمیہ پر حاکم صورت حال پر شدید تنقید فرمائی اور کہا: یہ علماء کے خلاف چند دہائیوں میں امپریالیزم کے فتنوں کا نتیجہ ہے، سماج کی خدمت کے ساتھ اجتماعی وسیاسی آگاہی کو ایسے مسائل میں شمار کیا جاتا تھا جو اسلامی روح سے مغایرت رکھتا ہے۔ ’’نجفیان‘‘ نے کتاب ’’زندگانی وآثار امام خمینی (ره) میں اپنے مقالوں کے اندر ان مخالفتوں کا تذکرہ کیا ہے جو امام خمینی (ره) کے اسلام کی حقیقی راہ کو بتانے اور سیاست کو دین سے جدا نہ ماننے پر ہوتی تھیں ۔ الحمدﷲ کہ آپ نہ صرف دشمنان اسلام کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے بلکہ آپ نے ان علماء کو بھی شکست دی جو اسلام کو مسجد اور نماز میں محدود کرتے تھے۔
اس بہت اہم کتاب کے بعض حصوں نے نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا پر بہت گہرا اثر ڈالا اور یہ مسلمانوں کی معنوی خودمختاری کی راہوں کو کھولنے کیلئے نہایت ضروری تھا اس لئے کہ معنویت اور روشن خیالی کے گہواروں پر مکڑیوں کا جالا تھا۔ مسلمانوں اور بالخصوص جوان نسل اور روشن خیالوں کو اسلامی راستہ سے بھٹکانے کیلئے اغیار ہر لمحہ اس کوشش میں ہیں کہ انہیں باور کرادیں کہ اسلام کے پاس کہنے کیلئے کوئی چیز نہیں ہے، اسلام حیض ونفاس سے متعلق چند احکام تک محدود ہے اور علماء کے مطالعہ کیلئے مناسب یہی چیز ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) کی سنت اور سیرت حکومت قائم کرنے کی ضرورت پر نشاندہی کرتی ہے:
تاریخ کی روسے آنحضرت (ص) نے خود حکومت قائم کی، اسلامی احکام کو پہنچایا اور سماج کے نظم وضبط کو سنبھالا۔ مختلف علاقوں میں گورنر بھیجے، قضاوت فرمائی، قاضی معین کئے، مختلف ممالک اور قبائل کے سرداروں کے پاس اپنے نمائندے بھیجے، صلح کے معاہدوں پر دستخط کئے اور فوج کی اعلیٰ کمان اپنے ہاتھوں میں لی۔ مختصر یہ کہ حکومت کے تمام منصب آپ کے پاس تھے اور آپ نے اپنے بعد کیلئے الٰہی دستور کے مطابق ایک جانشین معین کردیا اور یہی نکتہ کہ پروردگار عالم نے پیغمبر (ص) کے ذریعہ آنحضرت (ص) کے بعد اسلامی سماج کی رہبری کیلئے ایک شخص کو معین کیا اس بات کی نشاندہی کرتا کہ پیغمبر اسلام (ص) کے بعد حکومت قائم کرنے کی ضرورت اپنی جگہ پر باقی ہے۔ دوسری طرف خود پیغمبر اکرم (ص) نے جانشین کی تعیین کے عمل کے ذریعہ الٰہی حکم اور فرمان کو ہر ایک تک پہنچا دیا جو حکومت قائم کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ بھی ہے۔