اسلامی حکومت

امام خمینی(ره) اور اسلامی حکومت کا نظریہ

اسلامی احکام کا نفاذ ہمیشہ ضروری ہے اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے بغیر ان کا نفاذ ممکن ہی نہیں ہے

سیاسی فکر کے میدان میں امام خمینی (ره) کے بیان اچھوتا اور نیا ہے۔ علماء اور فقہا ءاب تک حکومت کے قیام کے مسئلے میں شکوک و شبہات کے شکار تھے لیکن آپ نے حکومت قائم کر کے سیاست سے دین کی عدم جدائی کو عملی طور پر ثابت کردیا۔ آپ کے نزدیک بھی آیت اللہ مدرس مرحوم جیسے سلف صالح کی طرح سیاست اور دین ایک ہی چیز ہیں ۔

امام خمینی (ره)وہ واحد فقیہ تھے جنہوں نے شیعہ تاریخ میں اسلامی حکومت کا نظریہ سیاسی فلسفے کے سانچے میں پیش کیا اور پھر اس کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ امام خمینی (ره) حکومت کو انسانی زندگی کے تمام زاویوں میں فقہ کا عملی فلسفہ اور تمام معاشرتی، سیاسی، فوجی اور ثقافتی مشکلات کے حل کے سلسلے میں فقہ کے عملی پہلو کا عکاس جانتے ہیں ۔ (صحیفہ نور، ج۲۱، ص ۹۸)

امام خمینی (ره) کے اقدام کا مقصد معاشرے کے مختلف پہلوؤں میں اصلاح کے وسیلے کے طور پر طاقت اور حکومت کا حصول ہے ایسی حکومت کہ جو ایک اعتبار سے ولایت عامہ اور ولایت مطلقہ الٰہی کے نفاذ کا ایک پہلو شمار ہوتی ہے۔

دین و سیاست کی ہم آہنگی و یکجہتی پر مبنی ولایت فقیہ کا نظریہ حضرت امام خمینی (ره) سے قبل دوسرے بزرگ علما نے بھی پیش کیا تھا لیکن امام خمینی (ره) نے اس کی جو نئی تشریح کی ہے وہ سابقہ علما کی تشریح سے بالکل مختلف ہے۔ آپ اس نکتے پر زور دیتے کہ اسلامی حکومت کی ماہیت اسی کی قیادت کی کیفیت اور خصوصیت میں مضمر ہے اور آپ کے نزدیک اس حکومت کا سربراہ فقط فقیہ ہونا چاہئے ۔

امام خمینی (ره) نے فرمایا: ’’علماء جب تک تمام مسائل اور مشکلات کا سامنا نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں اس کا ادراک نہیں ہو سکتا ہے کہ مروجہ اجتہاد معاشرے کا نظم و نسق چلانے کے لئے کافی نہیں ہے۔ دینی تعلیمی مراکز اور علماء کی نظر ہمیشہ معاشرے کے رجحان اور مستقبل کی ضرروریات پر ہونی چاہئے اور انہیں واقعات سے چند قدم آگے مناسب رد عمل کے لئے تیار رہنا چاہئے‘‘۔ (صحیفہ نور، ج۲۱، ص ۱۰۰ )

اسی بنا پر آپ نے اجتہاد اور پالیسی سازی میں زمان و مکان کے اہم کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’حکومت کفر و شرک اور اندرونی و بیرونی مسائل کے مقابلے کا عملی حل پیش کرتی ہے جبکہ مدرسوں میں بیان کئے جانے والے مطالب کہ جو فقط نظریات پر مشتمل ہوتے ہیں نہ صرف مسائل کو حل کرنے کے قبل نہیں ہیں بلکہ ہمیں آئین کی ظاہری خلاف ورزی پر مائل کرتے ہیں ‘‘۔ اس کے بعد آپ علمائے کرام کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :

’’آپ کو اپنی پوری کوشش اس مسئلے کے لئے کرنے کے ساتھ ساتھ کہ شریعت کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے، خدا تعالیٰ ایسا دن نہ لائے، آپ کی ساری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ خدانخواستہ اقتصادی، فوجی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے نشیب و فراز میں اسلام پر یہ الزام نہ لگایا جا سکے کہ وہ دنیا کا نظام چلانے سے قاصر ہے‘‘۔ (صحیفہ نور، ج۲۱، ص ۶۱)

امام خمینی (ره) نے اس حساس نکتے پر جو زور دیا ہے کہ اسلام کو آج کے انسان اور عصر حاضر کے مسائل کا عملی حل پیش کرنا اور انہیں حل کرنا چاہئے تو اس سے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں امام خمینی (ره) کی بابرکت بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ اس لئے آپ کو عملیت پسند فقیہ قرار دینا شاید غلط نہ ہو۔ حضرت امام خمینی (ره) نے فقہ کو نظریات کی دنیا سے عمل کی وادی تک پہنچادیا۔

فطری سی بات ہے کہ جدید دنیا میں دینی حکومت کی برقراری کا بابرکت تجربہ فقط اسی صورت میں کامیاب قرار دیا جا سکے گا کہ جب دین عصر حاضر کے گوناگون سوالات کا جواب دینے کے علاوہ انسان کے مختلف معاشرتی و سیاسی اور ۔۔۔ مسائل کو بھی حل کر پائے گا اور دوسری جانب سے تمام آسمانی اور زمینی ادیان و مکاتب پر اپنی نظریات، علمی اور عملی برتری ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام مخاطبین کو قانع کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔

ای میل کریں