امام کے فرزند نے کہا:گذشتہ نسلوں کی غلطیوں کی روک تھام کرنے کا واحد ذریعہ نسلوں کے درمیان اعتماد ہے ۔جماران خبر رساں ایجنسی کی خبر کے مطابق حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے شہری مدیریت اور توسعہ پائیدار اسٹوڈنٹ سیکریٹری کے دفتر کے اراکین سے ملاقات کے موقع پر ایرانی معاشرہ میں نسلی پرا گندگی کے مفروضہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے مفہوم اور بنیاد نیز اس کے مشکل راہ حل کے سلسلہ میں اظہار کیا ،نسلی پراگندگی میں اس طرح تبدیلی لائی جا سکتی ہے کہ اگر وہ نسل جدید جو بروئے کار آتی ہے وہ اپنے نسبت سابق نسل سے نہ ان کے کاموں میں غلطی کی وجہ سے بلکہ اس دلیل سے کہ اسے بے حیثیت اور کافی عزم کا مالک نہ جانے کی نسبت بے اعتماد ہو اور ان کے ذاتی اہداف اور نیتوں سے متہم کرے تو نسلی بکھراو پیش آتا ہے ۔
انہوں نے اضافہ کیا کہ بے اعتمادی کا اشکال اور اعتراض کچھ ایسے امور کا جدید تجربہ ہے جو پہلے کیا جا سکتا ہے اور معاشرہ مکررات کی تکرار کا شکار ہوگا ،فرض کرلیں کہ ایک عمارت بنائی جاتی ہے اور گر جاتی ہے اور ہم اسے دوبارہ بنانا چاہتے ہوں ،اگر اس کے سابق بنانے والوں کو ناکافی تدبیر ،کم توانائی یا ناقص ہمت رکھنے سے متہم کریں تو ممکن ہے کہ دوبارہ عمارت بنانے کے بعد بھی گر جا ئے، لیکن اگر ہم قبول کریں کے اس کی تعمیر میں ان کی نیت اور انکے اغراض و مقاصد اوران کا عزم و ہمت بھی واقعا ان کے بنانے کے لئے تھی پھر دیگر اسباب کی تحقیق کریں گے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ اساسی مشکل یہ تھی کہ اس جگہ عمارت بنانے کے لائق زمین نہیں تھی سید حسن خمینی نےاس بات کی تاکید کی کہ امتحان اور خطا انسانی حیات کی شرط ہے اس کے بات سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھایا اگر ہم لوگ ایک ایسی جگہ پر پہونچ جائیں جہاں سے دسیوں راستے نکلتے ہیں اور یہاں سے 9 افراد نے غلط راستہ طے کیا تو ان 9 افراد کی کارکردگی کا نتیجہ ہمارے کاموں میں موثر رہا ہے جبکہ اگر طے ہوتا کہ ہم کہتےہیں کہ ہم بھی انہی گذشتہ والوں کی راہ طے کر رہے ہیں تو ہم نتیجہ تک نہ پہونچے ،دوسری طرف سے اگر وہ لوگ ہماری جگہ پر ہوتے تو کامیاب ہوجاتے کیونکہ میں صرف زمانہ کے لحاظ سے ان 9 افراد سے متاخر رہا ہوں اور سابق افراد کے تجربہ سے استفادہ کیا ہے ،انہوں نے کہا کہ یہ کہ جدید نسل کہے کہ ہمیں گذشتہ افراد کے غلط کاموں کی تکرار نہیں کرنا چاہیئے اور یہ نسلی جدائی وہاں پر ہے کہ جدید نسل گذشتہ نسلوں کی شکست دیکھے اور تحقیق اور چھان بین نیز ریشہ یابی کے بغیر اس کی تکرار کرنا چاہیئے ۔اگر ہم ان سے سوال کریں کہ تم لوگ گذشتہ نسلوں کی راہ کیوں طے کرنا چاہتے ہو تو کہے کہ وہ لوگ بے حیثیت تھے نیز ناتواں تھے اور ذاتی مفادات رکھتے تھے ،اگر چہ بے حیثیت ہونا ایک ممکن امر ہے ۔ اور اگر تحقیق اور جستجو کے بعد اس نتیجہ پر پہونچے کے گذشتہ نسل بے وقعت تھی تو اس کام کی تکرار ہونا چاہیئے لیکن بعض امور ایسے ہیں کے اساسی طور سے ان کا ہونا نا ممکن ہے اگر آپ نے دیوار سے سر ٹکرایا اور دیوار نہ ٹوٹی تو جان لیجیئے کے دیوار قوی ترین وسائل سے ٹوٹ سکتی ہے اور تمہاری راہ صحیح نہیں ہے ۔یادگار امام خمینی ؒ نے ووضاحت کی : خانوادگی اور مقامی اجتماعات میں جدائی محدود پیمانہ پر پائی جاتی ہے اور معاشرہ اس راہ میں اپنی غلطیوں کی تجدید کرنے میں سنگین تاوان ادا کرے لیکن ہم جان لیں کہ اگر کوئی کام ناممکن تھا اور دوسری دفعہ ہم نے اس کی تکرار کردیا تو اس کو نسل جدائی نہیں کہتے بلکہ اسلاف کے تجربوں پر قدم رکھنا ہے ،انسان گذشتی نسلوں کی غلطیوں سے سہی کام کرنے سے پہلے درس حاصل کرے ،کیونکہ صحیح کاموں کا ایک نتیجہ ہے لیکن غلطیوں کی تکرار دسیوں مشکل کھڑی کرسکتی ہے ۔
سید حسن خمینی نے گذشتہ نسلوں کی غلطیوں کی تکرار سے روکنے راہ نسل کے درمیان اعتماد کا ہونا جانا ہے ۔ اور اضافہ کیا کہ جوانوں کو بھی اپنے اسلاف اور گذشتہ افراد کے سن پر اعتماد کرنا چاہیئے اور بزرگان کو ان پر اعتماد کرنا چاہیئے یہ جملہ جو کہا جاتا ہے "بوڑھا اسے کچی اینٹ میں دیکھتا ہے کہ جوان اسے آئینہ میں بھی نہیں دیکھ پاتا " ایک صحیح نکتہ ہے ایک جوان بہت بڑا سرمایہ ہے لیکن جن لوگوں نے اس راہ کو طے کیا ہے کوزہ بنانے کا فن سیکھا ہے پس ہمیں بزرگوں پر اعتماد کرنا چاہیئے اور جب وہ کہیں کہ یہ کام ناممکن ہے تو اسے سنی ان سنی نہ کردیں بلکہ کم سے کم اس کی تحقیق کریں ،اگر وہ کہتے ہیں کہ فلاں راستہ سے بہت جلد نتیجہ تک پہونچ جائیں گے تو ان کی باتوں پر اعتماد کرنا چاہیئے اور بزرگوں کو بھی جوانوں پر اعتماد کرنا چاہیئے کیونکہ معاشرہ میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ضروری ہے کیونکہ جوانوں کا گذشتہ کے افراد کے نقش قدم پر اعتماد نہ کرنا نسلی جدائی کا سبب ہوگا اور گذشتہ نسل کا جوان نسل پر اعتماد نہ کرنا بھی معاشرہ سے ایک عظیم سرمایہ کو چھین لے گا۔