عدالت، پروردگار عالم کی ایک صفت اور سنت ہے

عدالت، پروردگار عالم کی ایک صفت اور سنت ہے

امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں، عدالت ایک عمومی قانون کے مانند پوری کائنات میں نافذ ہے لہذا اسے احسن اور مکمل نظام کی صورت دی ہے۔

امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں، یہ دنیا عبث، بیہودہ اور یکبارگی وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ اس کا نظام ایک خالق اور ایک مدیر کے ہاتهوں میں ہے کہ جس نے اس دنیا کو اپنے علم، قدرت، حکمت اور لطف کی بناپر خلق فرمایا ہے اور اس کی ہمہ جہت اسے خبر ہے۔ یہ دنیا خود اس کی ملکیت اور مخلوق ہے، اس کے سوا اس دنیا کا کوئی حقیقی مالک قرار نہیں پا سکتا ہے۔

ان عقائد کی بنیاد اور اساس، جو کہ ہمارے عقائد میں سب سے زیادہ اہمیت رکهتا ہے، اصل توحید ہے۔ اس اصل کے مطابق ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا کا پیدا کرنے والا، تمام عوالم وجود اور انسان کا خالق صرف اور صرف خداوند سبحان ہے جسے تمام حقائق کی اطلاع اور خبر ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکهنے والا اور تمام چیزوں کا مالک حقیقی ہے۔(1)

اسی نقطہ نظر اور اسی بنیادی اصل یعنی توحید سے احساس ذمہ داری، انسان کی آزادی، مساوات اور قانون گزاری وغیرہ جنم لیتے ہیں۔ ذات خداوند سبحان جو عالم کل، قادر کل اور اس کے نتیجہ میں حکیم مطلق ہے، عدالت مطلق کا حامل ہے۔ اس معنی میں کہ اس نے ہر مخلوق کو کمالات کے حصول کی خاطر ایک خاص استعداد وصلاحیت مرحمت فرمائی ہے اور ہر ایک، خداوند عالم کی اس فیض رسانی سے استفادہ کرنے میں مساوی ہے اور ذات الہی میں کسی بهی طرح کا ظلم وجور کا تصور باطل ہے۔

خداوند عالم تکوین کے لحاظ سے بهی یعنی عالم کی تخلیق اور تدبیر میں بهی اور تشریع یعنی کاروان بشریت کے لئے قانون گزاری اور رسولوں کے مبعوث کرنے میں بهی عادل مطلق ہے۔

بعض مسلم علماء کے برخلاف کہ عدل خدا، ملاک اور معیار نہیں ہے جیسا کہ اشاعرہ کا کہنا ہے کہ جو کام بهی خداوند عالم انجام دے وہ عین عدل ہے، امام خمینی(رح) فرماتے ہیں کہ خداوند عادل ہے یعنی ذات حق تعالی سے کوئی بهی قبیح عمل سرزد نہیں ہو سکتا اور کسی بهی طرح کا نیک عمل اس سے ترک نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ خداوند عالم عادل مطلق ہے اور اس کی ذات عین عدل ہے، لہذا جو چیز بهی اس کی منشا اور قدرت حکیم کے ذریعہ نافذ ہوئی ہے وہ عدل کی بنیاد پر ہے؛ لہذا یہ کائنات چونکہ عدل کی بنیاد پر بنی ہے لہذا اس میں پایا جانے والا نظام بهی احسن واتم اور مکمل ہے۔

جن معارف کے سلسلہ میں حکیم(2)، متکلم(3) اور عام متدینین یقین رکهتے ہیں اور جن میں کسی ایک کو شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے وہ یہ ہے کہ جو چیز حکیم مطلق کے قلم قدرت سے تحریر ہو چکی جیسے رزق وروزی، موت وحیات وغیرہ یہ بہترین نظام کی بارز مثالیں ہیں جو عمومی مصلحتوں کی حامل ہونے کے ساته مکمل نظام کائنات کی حیثیت رکهتی ہیں۔(4)

امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں، عدالت ایک عمومی قانون کے مانند پوری کائنات میں نافذ ہے لہذا اسے احسن اور مکمل نظام کی صورت دی ہے۔ ہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں: یہ مکمل نظام جو کہ جمال مطلق ہے، جمیل مطلق کے زیر سایہ جمال مطلق اور اس کی انتہا بهی جمیل مطلق ہے۔(5)

اس کائنات کی ایک فرد انسان بهی ہے، اس اعتبار سے وہ بهی اس احسن اور اکمل نظام کا تابع ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ عدل الہی کے نفاذ کی، نسبتاً اپنے وجود میں توانائی رکهتا ہے اور یہی اس کی قیمت میں اضافہ کا سبب اور ذریعہ قرار پاتا ہے۔ کچه اس طرح کہ الہی عدل کی جلوہ نمائی خود انسان میں قابل مشاہدہ ہے اور وہ اپنے وجود میں اسی الہی عدل کی جلوہ نمائی کے زیر سایہ انسانی کمالات پر فائز ہو کر اللہ تعالی کا اسم اعظم اور انسان کامل کا خطاب پاسکتا ہے۔ اس زاویہ سے رسول خدا(ص) انسان کامل کے حقیقی مصداق اور امام خمینی(رہ) کی تعبیر کے مطابق اعتدال و استقامت کی اعلی منازل پر فائز ہیں۔ اسماء وصفات کے متحقق ہونے اور اس کے مظاہر ثابت ہونے کی بات ہو کہ جسے مطلق استقامت کا نام دیا جاتا ہے اور وہ انسان کامل سے مخصوص ہے اور اس کا رب اللہ تعالی ہے۔ پیغمبر اعظم(ص)، خداوند عالم کے مظہر تام ہیں اور آنحضرت صراط مستقیم کے مکمل مظہر نیز حد اعتدال پر مکمل فرد ہیں۔(6)

جیسا کہ اشارہ ہوا، عدالت اپنے اس معنی میں نظام تکوین وتشریع دونوں میں ثابت ہے۔ نظام تکوین میں عدل الہی سنتوں کی صورت اس عالم ہستی میں پایا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ احسن واکمل نظام ہے اور نظام تشریع میں وہ قوانین پائے جاتے ہیں جن کی بنیاد انسانوں کے لئے عدالت پر وضع کی گئی ہے۔ اسی سبب امام خمینی(رہ) الہی حکمت کا انسانی زندگی سے عادلانہ رابطہ کا نام غیر قابل تغییر، الہی سنت کا نام دیتے ہیں۔ خالق کائنات کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگ عادلانہ زندگی بسر کریں اور احکام وقوانین الہی کی رعایت کے ساته زندگی کے قدم آگے بڑهائیں۔ یہ حکمت، دائمی، الہی سنن میں سے ایک اور غیر قابل تغییر ہے۔(7)

حوالہ جات:

[1] ایضاً، ج 5، ص 387. [2] در مورد آراء فلاسفه و عرفاء ر.ک. صدرالدین محمد شیرازى [ملاصدرا]، الاسفار الاربعة، قم: مکتبة مصطفوى، ج 7، بى ‏تا، صص 55 ـ 105. [3])) در مورد آراء متکلمین ر.ک. علامۀ حلى، کشف المراد فى شرح تجرید الاعتقاد، صیدا: مطبعة العرفان، 1353ق.، ص 234، (مقصد سوم، فصل دوم، سفر سوم، موقف هشتم، فصل 1 تا 9). [4] شرح چهل حدیث، همان، ص 112. [5] امام خمینى، تقریرات شرح اسفار، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینى، چاپ اول، 1381، 3‏جلدى؛ عدل الهى از دیدگاه امام خمینى، ایضاً، ص 136. [6])) شرح حدیث جنود عقل وجهل، ایضاً، صص 147ـ148. [7] ولایت فقیه، ایضاً، قم: انتشارات آزادى، بى‏ تا، ص 40.

ماخذ: امام خمینی(رہ) پورٹل - فارسی

ای میل کریں