قم المقدسہ (ایران) میں 23 اور 24 نومبر 2014ء کو انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف «علماء اسلام کے نقطۂ نگاہ سے انتہا پسند اور تکفیری گروہوں» کے عنوان سے ہونے والی عالمی کانفرنس کے داعی اور میزبان آیات عظام ناصر مکارم شیرازی و جعفر سبحانی ہیں، یہ ایک غیر سیاسی اور خالص علمی کانفرنس ہے، جس میں 83 ممالک سے ممتاز علمائے اسلام شرکت کر رہے ہیں۔ کانفرنس کے ترجمان حجت الاسلام ڈاکٹر علی زادہ موسوی نے اس کانفرنس میں پورے عالم اسلام سے 300 سے زیادہ علمائے اسلام اور مفتیان کرام کے شریک ہونے کی خبر دی ہے۔
تقریب مذاہب اسلامی کے عالمی مرکز کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ محسن اراکی کے مطابق یہ کانفرنس عالم اسلام کی پوری تاریخ میں اپنی نوعیت کا ممتاز علمائے کرام کا ایک منفرد علمی اجتماع ہوگا۔ اس کی مثال ماضی کی تاریخ میں نہیں ملتی کہ دنیا بهر کے مختلف مکاتب فکر کے اسلامی دانشور اور علماء کسی ایک موضوع پر غور و فکر اور لائحہ عمل طے کرنے کے لئے اکٹهے ہوئے ہوں۔ انهوں نے بتایا کہ کانفرنس میں تکفیری تنظیموں، اداروں اور تکفیریت کی کوششوں کی حقیقت و ماہیت کا جائزہ لیا جائے گا، تکفیریوں کے عقائد کا بهی تجزیہ کیا جائے گا، تکفیریوں کی روش اور طریق کار پر بهی غور کیا جائے گا، نیز اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ تکفیریت اور تکفیریوں کا مقابلہ کس طرح سے کیا جائے۔
آیت اللہ اراکی کا کہنا تها کہ عصر حاضر میں جس پیمانے پر تکفیریت پوری طاقت اور لاؤلشکر کے ساته سامنے آئی ہے اور جس طرح سے اسے بعض حکومتوں اور استعماری طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہوچکی ہے، اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا بہت ضروری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تکفیریت کا ہر وار مسلمانوں پر ہی پڑتا ہے۔ تکفیری عناصر مسلمانوں ہی کو بموں اور گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تمام تر دہشت گردی کا ہدف مسلمان بنے ہوئے ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؑ کے مزارات بهی ان سے محفوظ نہیں۔
پاکستان کی سرزمین بهی انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور تکفیریوں کے ہاتهوں لہو لہان ہے۔ پاکستان کی معیشت ان عناصر سے گہرے زخم کها چکی ہے۔ خوف اور وحشت کے سائے پورے پاکستان پر منڈلا رہے ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ انتہا پسند عناصر آج تقریباً تمام مسالک میں پائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلحے کی قوت سب کے پاس موجود نہ ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ نفرتوں اور عداوتوں کی آگ بهڑکانے کا ہنر سب نے سیکه رکها ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال دیگر کئی مسلمان ملکوں میں دکهائی دیتی ہے۔
ایسے میں دردمند اور امت کے لئے سوزدل رکهنے والے علمائے کرام اور دانشوروں کا کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور اس صورت حال پر غور و فکر کرکے اس کے ازالے کی تدبیر کرنا حوصلہ افزا پیغام کی حیثیت رکهتا ہے۔ کانفرنس کے داعی آیت اللہ العظمٰی مکارم شیرازی نے بجا طور پر کہا ہے کہ تمام اسلامی مکاتب فکر میں انتہاء پسندی کا خاتمہ ضروری ہے۔ انهوں نے کہا کہ اس انتہا پسندی کی وجہ سے عالم اسلام داخلی اختلافات اور جنگوں میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس لئے تمام علمائے اسلام کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس انتہا پسندی کو روکنے کی کوشش کریں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں ایک عالمی اتحاد امت سیمینار اپریل 2014ء میں بهی منعقد کیا گیا تها، جس کی سرپرستی آیت اللہ العظمٰی شیخ ناصر مکارم شیرازی نے کی۔
اس کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا تها کہ اگر ہم قرآن اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلیں تو پوری امت متحد ہوجائے گی، امت کے اتحاد سے ہی ہر سازش ناکام ہوگی، اعلامیہ میں کہا گیا تها کہ ضروری ہے کہ عالم اسلام کی معتبر دینی شخصیات، دینی جماعتیں، اسلامی تحریکیں اس فتنہ کے تدارک کے لئے اور امت کے انتشار کے خاتمے کے لئے متحد ہوجائیں۔ دل آزار، نفرت آمیز، اشتعال انگیز نعروں اور جذبات سے مکمل احتراز کیا جائے۔
ثاقب اکبر کی تحریر سے اقتباس
شفقنا اردو