امام خمینی ؒنے گزشتہ تاریخی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایرانی معاشرہ کی اصلاح کے خاطر دینی افکار کے احیاء کی تھیوری کے تحت اور مغربی فکر کو نابود کرنے کیلئے ایک انقلابی تحریک کے ذریعہ موجود صورتحال [جو مغربی فکری و ثقافتی نمونہ کو قبول کرنے کی بنا پر مسلط ہوچکی تھی] کو تبدیل کر کے اسے اسلامی ایرانی کلچر کے مطابق بنادیا، ایک ایسی انقلابی تحریک کہ جس کا راستہ معاصر نظریات کے راستوں سے الگ تھا جوکہ معاشرتی زندگی کے مختلف شعبوں کو بے دین بنانا چاہتے تھے، لیکن امام خمینی ؒ کی تحریک نے دینی معاشرہ کی سمت حرکت کی اور دینی حاکمیت کا سبب قرار پائی ۔
مذکورہ انقلابی سرگرمیوں کے بعد، انسانی ومعاشرتی تعلقات وروابط امام خمینی ؒکے نظرئیے اور معاشرتی نظام کے نمونہ سے آپ کی دین شناسی کے مطابق دوبارہ تنظیم ہوئے، اسی دوران خواتین کا موضوع اور ان کے کردار و منزلت نیز معاشرتی میدان میں ان کی شرکت کی کیفیت؛ ان تمام چیزوں میں بنیادی بدلاؤ آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آئیڈیالوجی سے متعلق نظرئیے میں بنیادی تبدیلی کے ساتھ امام خمینی ؒ نے انسانی معاشرے کی سعادت کیلئے جو سماجی نظام پیش کیا اس میں پیش کردہ عورت کے نمونے کی بنیاد پر عورت کی اخلاقی شخصیت کو نمایاں کرنے کے ساتھ سماجی اصلاح ممکن ہوگئی ۔
اس نظریہ کے مطابق عورت کی شخصیت کا اخلاقی چہرہ، ایک طرف سے خاندان کے درمیان با رونق ہونے کے علاوہ، تربیتی سرگرمیوں میں عورت کے کردار کے ذریعہ، معاشرتی نظام کی توسیع میں دوام حاصل کرتاہے تو دوسری جانب اسی اخلاقی امتیاز پر تکیہ کرتے ہوئے عورت کا معاشرہ میں حصہ لینا معاشرتی اخلاق کی ذمہ داری ادا کرتا ہے، امام خمینی ؒ فرماتے ہیں:
’’عورت اپنی تربیت کے ذریعہ انسان بناتی ہے اور اپنی صحیح تربیت کے ذریعہ ملک کو آباد کرتی ہے، تمام سعادتوں کا مبدأ عروج عورت کا دامن ہے، عورت کو تمام سعادتوں کے ہمراہ ہونا چاہیئے‘‘۔
صحیفہ امام، ج ۷، ص ۳۳۹