۱۳۵۷ہجری شمسی کو پیرس میں بعض جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی(رہ) نے اس مسئلہ پر گفتگو کی جس میں کہا گیا تها کہ اسلام انسانوں کی ضروریات پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ امام امت نے فرمایا: بسا اوقات اسلام کی "رجعت پسندی" سے توصیف تو کبهی "خشونت" سے اسے متصف کیا جاتا ہے اور کبهی یہ کہا جاتا ہے کہ آج سے صدیوں قبل آنے والا اسلام اور اس کے قوانین وشریعت موجودہ دور کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے!! یہ سب پروپگنڈے ہیں۔ اس کی زندہ مثالیں اسلام کے متون میں موجود ہیں جو کہ تمام مذاہب اور اقوام وملل کے مبلغین کی باتوں کے برخلاف ہیں۔
امام خمینی(رہ) کی گفتگو مندرجہ ذیل سطور میں آپ قارئین کے لئے پیش کرنے کی ہم سعادت حاصل کر رہے ہیں:
بسم الله الرحمن الرحیم]
اسلامی حکومت کا غلط خاکہ کهیچنا
میں پُر امید ہوں کہ ایران میں اسلامی حکومت قائم ہو اور اسلامی نظام مملکت کے فوائد، آج کے انسان پر روز روشن کی طرح واضح ہوں تا کہ بشریت کو دین اسلام کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ حکومتوں اور ملتوں میں آپسی کس طرح کا رابطہ استوار ہے؟
عدالت کے نفاذ کا طریقہ کار کیا ہے؟
اور پتا چل سکے کہ نظام اسلامی کی اعلی عہدہ پر فائز شخصیت کا عام انسان کی زندگی سے کیا فرق پایا جاتا ہے؟
اگر اسلام کے بعض خصوصیات وفوائد سے لوگ آشنا ہو جائیں تو مجهے امید قوی ہے تمام بشریت اسلام کی گرویدہ ہو جائے گی۔
اسلامی حکومت اور اس کی پہلی فرد جسے خلیفہ کا نام دیا جاتا ہے، وہ معاشرے کے پست ترین اور فقیر طبقہ جیسی زندگی بسر کرتا ہے۔ جس عدالت کے قیام کی اسلام نے تاکید فرمائی ہے اس کی نظیر تاریخ بشریت میں کہیں دکهائی نہیں دیتی۔ اسلامی نظام حکومت شاہوں اور بادشاہوں کی سلطنت اور ریاستی حکومتوں سے مختلف ہے۔
اسلام کا حاکم، وہ حاکم ہے جو لوگوں کے درمیان، مدینہ کی اسی چهوٹی سی مسجد میں ہمنشین ہوتا اور ہر وہ شخص جس کے ہاته میں زمام مملکت ہوتی وہ تمام طبقات سے تعلق رکهنے والوں کے ساته ایسا بیٹهتا کہ باہر سے آنے والا نہ سمجه پاتا کہ اس میں رئیس کون اور صاحب منصب ہے اور کس کا تعلق فقراء سے ہے؟! ان کا لباس وہی فقیروں جیسا اور رہنے کا انداز وہی فقراء جیسا۔ ان کے یہاں عدالت محوری اس حد تک پائی جاتی تهی کہ اگر قوم کے کسی پست طبقہ سے تعلق رکهنے والا نظام مملکت کی اولین شخصیت کے خلاف شکایت لے کر پہنچتا تو قاضی اسے طلب کرتا اور وہ بهی حاضری دیتا اور اگر فیصلہ اس کے برخلاف بهی جاتا تو اسے ماننا پڑتا!!
افسوس کا مقام ہے کہ آج انسان پر یہاں تک کہ خود مسلمانوں پر اسلام کے محاسن پوشیدہ ہیں اور ظالمین وتیل غارت کرنے والوں نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے میں رکاوٹ پیدا کر رکهی ہے۔
اگر اسلام صحیح اور اصول اسلامی کی رعایت کے ساته پیش کیا جائے تو ہمیں امید ہے کہ تمام بشریت اسلام کے پرچم تلے اکٹها ہو جائیں گے۔ تمام مکاتب فکر کو اسلام کے آگے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آج کے پروپگنڈے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ ہمیں اسلام ناب اور خالص دین کی تلاش ہے۔ ہم اسلام، حد اقل اسلامی حکومت، کو ایک طرح سے اسلامی نظام کے تحت عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تا کہ آپ ڈیموکریسی کے صحیح معنی سے آشنا ہو سکیں اور آج کا انسان یہ درک کرسکے کہ اسلام میں موجودہ ڈیموکریسی اُس معروف ومشہور اصطلاحی ڈیموکریسی سے کتنی مختلف ہے جس کا کهوکهلا نعرہ بعض سربراہان ممالک اور بادشاہان وقت لگاتے پهرتے ہیں۔
الہی قوانین کی ان نشستوں میں اجمالی ہی صحیح توضیح نہیں دی جا سکتی ہے لیکن میں یہاں پر ایک چهوٹی سی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔
اسلام کے قوانین ایسے ہیں جو افراد کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ کاروان بشریت کی ایک ایک فرد کا باہمی، انسان کا خداوند سبحان سے اور پهر ہر ہر فرد کا پیغمبر اسلام(ص) سے رابطہ اور حکومت سے رابطہ اسی طرح کسی بهی فرد کا دوسرے ادیان ومذاہب کے پیروکاروں سے رابطہ بلکہ یوں کہا جائے کہ ہر وہ رابطہ جو کسی بهی انسان کا اپنے ہم مذہب و ہم مسلک سے قائم ہو سکتا ہو یا پهر دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے، اسلام میں ذکر ہوا ہے اور اس کے اپنے قوانین ذکر ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سارے احکام بندگان خدا کا خدا کی ذات سے رابطہ کے متعلق ہے۔ بلکہ ویسے ہی جیسے حضرت مسیحعلیہ السلام (جیسا کہ مذہب مسیح سے معلوم ہوتا ہے) کے ذریعہ خدا نے وہی رابطہ بیان کرنا چاہا جو خدا اور خالق یکتا کے ساته ہم انسانوں کا رابطہ ہے۔ اسلام میں اس موضوع پر مکمل ومفصل احکام اور قوانین پائے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اسلام نے اس بچے کے صحیح وسالم متولد ہونے کے قوانین بهی وضع کئے ہیں جس کی ابهی ولادت بهی نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح شادی سے قبل زن وشوہر کے آپسی انتخاب کے شرائط اور باہمی زندگی سے متعلق مسائل، دوران حمل کے قوانین، دوده پلانے کے احکام، اس وقت کے تقاضے جب بچہ آغوش مادر میں پروان چڑه رہا ہوتا ہے، اس وقت کے مسائل جب بچہ اپنے معلم کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر رہا ہوتا ہے، ان ساری چیزوں سے متعلق اسلام میں قانون پائے جاتے ہیں۔ ایک انسان کی صحیح تربیت کے قوانین ہیں۔
اس کے علاوہ، جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اسلام، مسیحیت جیسا مذہب نہیں ہے کہ جس میں حکومت کی باگڈور سنبهالنے کے قوانین نہ پایا جاتا ہو اور اگر پایا بهی جاتا ہو تو وہ مسیحیوں تک پہنچا نہ ہو۔ اسلام میں حکومت پائی جاتی ہے۔ یہ حکومت بهی دیگر حکومتوں کی طرح قانون رکهتی ہے جس کا اولین اور بنیادی قانون عدالت پر منحصر ہے۔ میں اسلام کے قوانین آپ کے لئے بطور مفصل بیان نہیں کرسکتا۔ تفصیلی تو دور کی بات ہے بطور اجمال بهی اس کا ذکر میرے لئے ناممکن ہے۔
اگر خداوند عالم کی جانب سے آپ کو توفیق حاص ہوئی اور آپ نے اسلام کا دامن تهاما تو آپ خود آہستہ آہستہ ان مسائل سے آگاہ ہوتے چلے جائیں گے۔
صحیفه امام، ج4، ص417
بشکریہ جماران نیوز ایجنسی