مشرق سے ابهرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکه

مشرق سے ابهرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکه

عراق کے سنی عرب اور کرد بهی خمینی بت شکن کی خواہش پر قائم کی گئی قدس فورس کے سربراہ حاج قاسم سلیمانی کے گیت گا رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ شیعہ اسلامی انقلاب کا ڈنکا چہار سو بج رہا ہے۔

آج جب جمہوری اسلامی ایران میں انقلاب اسلامی کی 36ویں سالگرہ کی مناسبت سے عشرہ فجر دهوم دهام سے منایا جا رہا ہے تو سرزمین مقدس اویس قرنی(رض) یمن سے بهی انقلابیوں کی کامیابی کی نوید سنائی دے رہی ہے۔

اس موقع پر رزمندگان اسلام ناب محمدی(ص) جماران کے مکین اور بہشت زہراء(س) میں خاک نشین، خلد میں محو استراحت امام خمینی(رح) کے حرم مطہر پر امام زمانہ(عج) کے بسیج اور نائب مہدی(عج) رہبر معظم انقلاب اسلامی نائب الامام خامنہ ای کی حاضری ایک کامیاب امت اور کامیاب قائد کی حاضری کہی جانی چاہئے۔

بانی انقلاب نے جو برنامہ ترتیب دیا تها، امت مرحومہ کی اسلامی سیاسی بیداری کے جس سلسلے کی داغ بیل انہوں نے ڈالی تهی، اور جس کو احسن طریقے سے رہبر معظم نے آگے بڑهاتے رہے، آج اس کے اثرات و ثمرات کا مشاہدہ پوری دنیا کر رہی ہے۔ دشمنوں کی جانب سے امت حزب اللہ کی کامیابی اور اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ 

امام خمینی نے اپنی زندگی ہی میں لبنان کی حزب اللہ کی بعض کامیابیوں کی جهلک دیکه لی تهی۔ لیکن آج یمن کی حرکت انصار اللہ دنیا کے استکبار شکن قائد نائب الامام کی زندگی میں انقلاب کے پیچیدہ مراحل کو کامیابی سے اس کے منطقی انجام کی طرف لے جا رہی ہے۔

عراق کے سنی عرب اور کرد بهی خمینی بت شکن کی خواہش پر قائم کی گئی قدس فورس کے سربراہ حاج قاسم سلیمانی کے گیت گا رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ شیعہ اسلامی انقلاب کا ڈنکا چہار سو بج رہا ہے۔ 

فروری کے آغاز میں ہی یمن کے حوثی انقلابیوں نے احتجاج کے فیصلہ کن مرحلے کا آغاز کیا، قومی مفاہمت کے لئے کانفرنس بلائی اور حکومت کو تین دن کی مہلت دی کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے چار مطالبات پر فوری عمل کرے۔ جب حکومت ناکام ہوئی تو اقوام متحدہ کے نمائندہ کے تحت یمن کی جماعتوں کی اکثریت نے ایک عبوری صدارتی کاؤنسل کے ذریعے ملک کا نظم و نسق چلانے پر اتفاق کرلیا۔

کہا جاسکتا ہے کہ سرزمین حضرت سلمان فارسی(رض) سے انقلاب اسلامی کا جو نیا سورج طلوع ہوا تها اور جس کی کرنوں نے سرزمین حضرت ابوذر(رض) لبنان و فلسطین میں نئے انداز کی مسلح مقاومت کی سرپرستی کی، اب سرزمین حضرت اویس قرنی(رض) میں بهی اس کی روشنی سے اسلام و مسلمین فیضیاب ہو رہے ہیں۔ انقلاب اسلامی کی 36ویں سالگرہ کا سورج اس پیغام کے ساته افق پر نمودار ہو رہا ہے۔

 علامہ اقبال نے تہران کو عالم مشرق کا جنیوا یوں ہی نہیں کہا تها بلکہ اسے کرہ ارض کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ بهی سمجها تها۔ آج تہران اقبالیات کے کشکول میں موجود اس شعر کا مصداق نظر آتا ہے: مشرق سے ابهرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکه!

اس خوشگوار انسانیت دوست و اسلام دوست انقلابی تبدیلی سے انکار ممکن نہیں۔

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

ای میل کریں