حضرت آیت الله سبحانی نے تاریخ اسلام کی پوری مدت میں تکفیر کو تین دور میں تقسیم کیا ہے اور کہا: تکفیر کا جائزہ تین زمانہ میں کیا جا سکتا ہے، زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، خلیفہ سوم عثمان کا زمانہ اور امیر المومنین علیہ السلام کا زمانہ، سب سے پہلے تکفیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں ذکر ہوا ہے۔
سب سے پہلے تکفیر جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ناراحت ہونے کا سبب بنا وہ عصامہ بن زید کا مسئلہ ہے؛ وہ ایک قوم کو توحید کی ہداہت کے لئے معین کئے گئے تهے کہ راستہ میں پیغمبر کے ایک صحابی سے رو برو ہوئے اور عصامہ نے ان صحابی کو کافر کہا لیکن وہ انکار کر رہے تهے اور کہتے تهے کہ میں نے « لا اله الا الله » کہا ہے اور مسلمان ہوں، لیکن عصامہ نے ان کی بات کو قبول نہیں کی اور ان کو قتل کردیا!
حوزہ علمیہ کے مشہور و معروف استاد نے سورہ مبارکہ نساء کی ۹۴ آیہ کے نزول کو عصامہ کے شامل حال جانا ہے اور بیان کیا:
آیت میں « یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا ضَرَبْتُمْ فی سَبیلِ اللَّهِ فَتَبَیَّنُوا وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَیْکُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیاةِ الدُّنْیا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ کَثیرَةٌ کَذلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوا إِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً »، اے وہ لوگ جو خدا کے راہ میں جہاد کرتے ہو « فَتَبَیَّنُوا » آنکه بند کر کام نہ کرو « وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَیْکُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً » وہ لوگ جو تم سے کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں تو تم اس کو مت کہو کہ تم مومن نہیں ہو، « تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیاةِ الدُّنْیا » کیونکہ اس کے قتل سے تمہارا مقصد اس کے اسلحہ و اموال کو حاصل کرنا ہے « فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ کَثیرَةٌ » اگر نعمت چاہتے ہو تو مال، خدا کے پاس ہے۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکهتے ہوئے کہا: یہ پہلا تکفیر اسلام میں تها کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سختی سے اس کی مخالفت کی۔
مرجع تقلید نے « ولید بن عُقبه » کو دوسرا شخص جانا جس نے تکفیر کا اقدام کیا تها اور اظہار کیا: وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے معین کئے گئے تهے کہ قبلیہ « بنی مستلع » سے زکات جمع کریں؛ جب وہ اس قبیلہ میں پہونچے تو وہاں کے لوگوں نے ان کے آنے پر استقبال کیا لیکن وہ اس خیال کے ساته کہ وہ لوگ اس کو قتل کرنے کے لئے آئے ہیں وہاں سے لوٹ آئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا کہ وہ لوگ مرتد ہو گئے ہیں اور زکات نہیں دے رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض صحابی کہتے تهے کہ ان لوگوں کو قتل کردیا جائے لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خاموشی اختیار کی اور آیت نازل ہوئی جس میں بیان ہوا ہے کہ " اگر کسی کے فاسق ہونے کی خبر تم تک پہونچی ہے تو اس کی تفتیش و تحقیق کرو، اس کی بات پر کوئی قدم نہ اٹها لینا اور بعد میں پشیمانی ہو"۔
حضرت آیت الله سبحانی نے اسلام میں دوسرے مرحلہ میں تکفیر کی فکر آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: عثمان کے زمانہ میں عثمان کے تکفیر ہونے کا مسئلہ سامنے آیا، عائشہ بهی ان میں سے تهی جو عثمان کو پوری طرح سے تکفیر کرتی تهیں، مسجد میں جاتی تهیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لباس کو ہاتهوں میں اٹها کر کہتی تهیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لباس ابهی پرانا بهی نہیں ہوا ہے لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دین پرانا ہو گیا!! وہ کیوں عثمان کی تکفیر کرتی تهیں؟ اس لئے کہ وہ مال کو عادلانہ تقسیم نہیں کرتے تهے، صوبہ دار اموی ہوا کرتے تهے، قاضی بهی اموی سے وابستہ تهے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام اصحاب کو کنارہ کردیا گیا تها!!
انہوں نے آخر میں کہا: داعش ایک ایسا گروہ ہے جو نہ سنی ہے اور نہ ہی شیعہ بلکہ بیرونی عوامل اور سامراجی دنیا کی پیداروا ہیں انہوں نے اسلام کے نام کو اپنے ساته جوڑ لیا ہے اور یہ کچه سال پہلے تشکیل ہوا ہے تا کہ ان کی مدد سے ایسا کام انجام دیا جائے جس سے اسرائیل سکون و سلامتی کے ساته اپنی زندگی بسر کرے جیسا کہ ہم لوگ دیکه رہے ہیں وہ عراق اور شام کی طرف گئے کیونکہ یہ دو ممالک ایران کے ساته ہیں لیکن ان لوگوں کی اسرائیل اور ان کے دوستوں کے ساته کوئی مشکل نہیں ہے۔