نظام امامت میں دنیا اور اس کی لذتوں پر نہ یکسر پابندی لگائی جاتی ہے اور نہ ہی فی نفسہ انہیں پسندیدہ قرار دیا جاتاہے، بلکہ ان کو الٰہی رنگ میں رنگا جاتا ہے اور فرد اور معاشرے کی ترقی وتکامل کیلئے کام میں لایا جاتا ہے۔ جبکہ جمود پرست جو کہ عموماً یا افراط سے کام لیتے ہیں یا تفریط سے یا کسی حدیث کو سامنے رکھ کر دنیا اور اس کی لذتوں کو ممنوع قرار دے دیتے ہیں یا کسی دوسری حدیث کے پیش نظر دنیا طلبی، مال ودولت جمع کرنے نتیجتاً تجمل اور بے مہری کو جائز گردانتے ہیں ، بلکہ بعض اوقات تو زکات جیسے بعض اسلامی احکام کو معاشرے میں غربت کے جواز کی دلیل قرار دیتے ہیں ۔
’’یہ جو کہا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انبیاء فقط معنویات پر توجہ دیتے تھے، حکومت اور اقتدار کو انہوں نے ٹھکرادیا۔ انبیاء، اولیاء اور بزرگ ہستیاں اس سے گریز کرتی تھیں اور ہمیں بھی ویسے بھی کرنا چاہئے یہ ایک ایسی افسوس ناک غلط فہمی ہے کہ جس کا نتیجہ مسلمان امہ کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرنے اور سامراجیوں کا راستہ ہموار کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ ٹھکرائے جانے کے قابل تو وہ شیطانی، ڈکٹیٹر اور جابر حکومتیں ہیں جو تسلّط کی خاطر، غلط اور ایسے ناجائز مادی مقاصد کے حصول کیلئے برسر اقتدار آئی ہوں جن سے منع کیا گیا ہے۔ جن کا مقصد مال ودولت جمع کرنا، اقتدار اور طاقت طلبی اور طاغوت کی ترویج ہو، الغرض ایسے مادی مفادات کہ جو انسان کو حق تعالیٰ سے غافل کردینے والے ہوں ۔ جبکہ مستضعفین کیلئے مفید، ظلم وستم کی روک تھام کیلئے اور عدالت اجتماعی کی برقراری کیلئے قائم کی جانے والی حق کی حکومت تو ایسی ہے جس کے کی برقراری کیلئے حضرت سلیمان بن داود ؑ اور آنحضور ؐ جیسے انبیاء کرام اور آپ ؐ کے عظیم المرتبت اوصیاء ؑ نے کوشش کی ایسی حکومت کا قیام اہم واجبات اور عظیم ترین عبادات میں سے ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۷۸)
’’اسلام مظلوم عوام کو محرومیاں دینے والے ظالمانہ اور غیر محدود سرمایہ دارانہ نظام کا حامی نہیں ہے، بلکہ وہ تو بھرپور انداز میں کتاب وسنت میں اس پر نکتہ چینی کرتا ہے اور اسے عدالت اجتماعی کے منافی قرار دیتا ہے۔ ہر چند اسلامی حکومت اور اسلام کے سیاسی احکام کو صحیح معنوں میں نہ سمجھ سکنے والے بعض نادانوں نے اپنی تقریر وتحریر میں یہ ظاہر کیا ہے اور ابھی تک یہ ثابت کرنے سے ہاتھ نہیں کھینچا ہے کہ اسلام بغیر کسی حد بندی کے ملکیت اور سرمایہ داری کا حامی ہے اور اپنے اس غلط طرز فکر کے ذریعے انہوں نے اسلام کے نورانی چہرے پر پردہ ڈال دیا ہے اور اسلام کے دشمنوں اور ناجائز مقاصد رکھنے والوں کو اسلام پر حملے کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔۔۔‘‘۔( صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۷۸)
’’جو افراد یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا جہان کے محروموں اور مستضعفین کی آزادی اور خودمختاری کی خاطر جہاد کرنا سرمایہ داری اور آسائش پرستی کے منافی نہیں ہے وہ جہاد کی ابجد تک سے نابلد ہیں اور جو یہ خیال کرتے ہیں کہ بے درد سرمایہ دار اور عیاش وعظ ونصیحت سے راہ راست پر آجائیں گے اور آزادی کی راہ میں جہاد کرنے والوں کی صف میں شامل ہوجائیں گے یا ان کی کمک کریں گے تو یہ ان کا خیال خام ہے۔
جہاد اور عیس کوشی، جہاد اور راحت طلبی، دنیا طلبی اور آخرت طلبی ہرگز یکجا نہیں ہوسکتے ہیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۲۳۵)