تفسیر

امام خمینی(ره) کی تفسیری نظریات

امام خمینی (ره)نے تفسیر قرآن میں مادی مسائل کے مقاصد کا بھی تعین کیا ہے اور معنوی امور پر بھی توجہ دی ہے

عصر حاضر میں تفسیر کو بہت سے نشیب وفراز کا سامنا ہوا ہے اور وسیع پیمانے پر علمی مباحثات ایک ایسا واقعہ ہے جو اس شدت اور وسعت کے ساتھ پہلے کبھی بھی رونما نہیں ہوا تھا۔ یہ جو چودہویں صدی کے آغاز سے ہی بہت سے مفسرین نے بعض آیات کی تفسیر میں سائنسی انکشافات کی طرف اشارہ کیا ہے یا کم از کم جو آیات ظاہری طورپر سائنسی قوانین اور اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ان کی تاویل کی ہے تو اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کی تفسیر کی جانب رجحان رکھتے اور اس کو اہمیت دیتے ہیں ۔

اجتماعی وسیاسی بحثوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔ آزادی، اجتماعی نظم، نظم حیات مسلمانوں کی پسماندگی کا علاج، حقوق نسواں جیسے موضوعات کا زیر بحث لایا جانا تفاسیر میں ایک نئی چیز ہے اور اس سے اس گروہ سے تعلق رکھنے والے مفسرین کی خاص مقاصد پر توجہ اور رجحان کی نشاندہی ہوتی ہے۔

امام خمینی (ره) مفسرین پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مفسرین کیوں قرآن کے مقصود کا ادراک نہیں کرتے اور کتب کے نزول اور انبیاء (ع) کی بعثت کے اصل مقصد کی تشریح کیوں نہیں کرتے، خود تفسیر کے مقاصد کو بیان کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے تفسیری نظریات کا ایک نمایاں نکتہ قرآن کے مقاصد سے متعلق آپ کی تاکید ہے اور یہ تاکید دو اعتبار سے توجہ طلب ہے:

۱۔ اس نکتے کی تاکید کہ مفسر فقط پیام کو واضح کرنے کے درپے نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس صورت میں وہ اس بیمار کی طرح ہوجائے گا کہ جو ڈاکٹر سے رجوع کرنے کے بعد نسخہ حاصل کرتا ہے اور پھر طبیب کے اسی نسخہ کے کلمات کی تشریح میں مصروف رہتا ہے۔

امام (ره)کی نظرمیں اگر مفسر کتاب کے مقاصد کو واضح نہ کرے تو چاہے تشریح کلمات میں کامیاب ہوجائے پھر بھی وہ مفسر نہیں ہے۔ مفسر قرآن ہونا قرآن کے مقاصد کا مفسر ہونا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :

’’یہ تفاسیر کہ جو شروع سے اب تک لکھی گئی ہیں، قرآن کی تفاسیر نہیں ہیں ۔ ان میں سے بعض قرآن کا تقریباً ترجمہ ہیں اور ان سے قرآن کی بہت کم خوشبو آتی ہے۔ وگرنہ یہ تفاسیر نہیں ہیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۸)

آپ ایک اور مقام پر تفسیر کے معنی کو مقاصد کے ذکر اور شرح وبیان میں واضح موقف پر موقوف جانتے ہیں :

’’کلی طورپر کتاب کی تفسیر کے معنی یہ ہیں کہ اس کتاب کے مقاصد کی تشریح کی جائے اور اہم مقصد صاحب کتاب کا مقصود بیان کرنا ہو۔ یہ کتاب شریف کہ جو خدا تعالیٰ کی گواہی کے مطابق ہدایت وتعلیم کی کتاب اور سلوک انسانیت کے راستے کا نور ہے، مفسر کو چاہیے اس کے قصص میں سے ہر واقعے، بلکہ آیات میں سے ہر آیت کے عالم غیب کی جانب ہدایت کے پہلو، سعادت وسلوک کے راستوں اور معرفت وانسانیت کی راہ کی جانب راہنمائی کے طریقے سے متعلم کو آگاہ کرے۔ مفسر جس وقت ہمیں مقصد نزول سمجھاتا ہے مفسر ہے، نہ کہ وہ سبب نزول کہ جس طرح تفاسیر میں بیان ہوا ہے کو ذکر کرتے وقت مفسر ہے‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۱۹۲)

۲۔ نزول قرآن کے معین مقاصد کو نمایاں کرنے کی تاکید ہے، امام خمینی (ره) اپنی تحریروں اور تقاریر میں قرآن کے گوناگوں مقاصد کو زیر بحث لائے ہیں اور یہ تمام مقاصد ایک ہی محور یعنی ہدایت وتعلیم کے گرد گھومتے ہیں لیکن آپ نے مقاصد قرآن بیان کرتے ہوئے سیر وسلوک کی جانب توجہ، نفس کے عیوب اور ابلیسی اخلاق کی نشاندہی اور انسان کے کمالات کی زیادہ تاکید کی ہے :

          ’’کتاب خدا، معرفت واخلاق اور کمال وسعادت کی طرف دعوت کی کتاب ہے اور تفسیر کتاب بھی عرفانی اور اخلاقی کتاب اور عرفانی واخلاقی اور سعادت کی دوسری جہات کی دعوت کی کتاب ہونی چاہیے اور اس پہلو سے غفلت کرنے، اسے اہمیت نہ دینے اور اس سے صرف نظر کرنے والے مفسر نے آسمانی کتب کے نزول اور انبیاء کی بعثت کے اصل مقصد سے غفلت کی ہے اور یہ ایک ایسی خطا ہے کہ جس نے صدیوں اس ملت کو قرآن سے استفادہ سے محروم رکھا اور لوگوں کی ہدایت کے راستے کو بند کردیا‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۱۹۳)

آپ ایک اور جگہ پر صراحت سے فرماتے ہیں :

          ’’اگرچہ قرآن تمام طبقات کیلئے دسترخوان ہے لیکن اس کتاب میں بہت مسائل ہیں ۔ سب سے اہم معنوی مسائل ہیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۱۵۶)

امام خمینی (ره)بعض افراد کی طرح تفسیر قرآن میں ایک ہی پہلو پر توجہ کے رجحان کو رواج دینے اور معنوی مسائل کو اہمیت دینے کے ذریعے قرآن کے مادی مقاصد پر توجہ کو کم کرنا نہیں چاہتے تھے، بلکہ اس کے برعکس آپ نے متعدد مواقع پر اس نکتے کی یاد دہانی کرائی کہ قرآن کی مادی جہات سے غفلت حقیقت کے منافی ہے، مثلاً انقلاب کے بعد آپ نے اپنی ایک تقریر میں کہا:

          ’’افسوس کہ ہم کو دو زمانوں میں دو گروہوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک وقت اس گروہ کا سامنا کرنا پڑا کہ جب وہ قرآن کو دیکھتا، اس کی تفسیر اور تاویل کرتا تو قرآن کے دنیوی پہلو پر بالکل توجہ نہ دیتا۔ اس گروہ کے افراد تمام آیات کو معنویات کی طرف پلٹا دیتے یہاں تک کہ جو آیات قتال کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان کی تاویل نفس کے ساتھ قتال کرنے کے ساتھ کرتے۔ جو چیزیں اس دنیاوی زندگی سے متعلق تھیں ان کو معنویات سے تاویل کردیتے تھے۔ انہوں نے قرآن کے صرف ایک پہلو کا ادراک کیا تھا۔ البتہ وہ بھی ناقص طورپر اور وہ معنوی پہلو تھا، وہ تمام جہات کو اس پہلو کی پلٹا دیتے تھے۔ اس کے بعد ہم کو اس کے مقابل رد عمل کا سامنا کرنا پڑا کہ جو اب بھی ہے، اس گروہ نے بالکل برعکس کردیا۔ پہلے گروہ نے مادیات کو معنویات پر فدا کردیا تھا اور اس گروہ نے معنویات کو مادیات پر قربان کردیا۔ اس گروہ کے افراد ہر آیت کی تاویل دنیوی امر کے ساتھ کردیتے ہیں۔ ‘‘ (صحیفہ امام، ج ۱۱، ص ۲۱۶)

ای میل کریں