امام خمینی(رہ) کی 1970ء اور اس سے پہلے کی تحریک میں دینی فکر کا احیا ء اہم ترین اہمیت کے حامل امور میں سے ایک تها۔ اپنی معاشرتی اور سیاسی زندگی کی ابتدا ہی سے انہوں نے سچے اسلام کو واضح کردینا اور جہالت، تنگ نظری اور توہمات کی زنجیروں کو توڑدینے کو اپنا بنیادی اور ابتدائی مقصد قرار دیا تها۔ انہوں نے لوگوں کی عقائدی اور فکری حالت کو منقلب کردینے اور مطلق العنان رژیم کی ساخت کو تبدیل کرکے اسلامی حکومت کی بنیاد رکهنے کے لئے اصل اسلامی کردار کو معاشرے اور سیاست کے مرکزی امور میں قرار دینے کو اہم سمجها۔ امام خمینی(رہ) دینی فکر کے احیاء پر، انقلاب اسلامی کے بپا ہونے سے سالوں پہلے، ایک مقدس ہدف کے طور پر عالمی سطح پر حتیٰ کہ انقلاب اسلامی کی کامرانی اور اسلامی جمہوریہ کے نظام کی بنیاد رکهنے سے بهی پہلے زور دیتے رہے۔ اپنی پر برکت زندگی کے آخری ایام تک بهی وہ اس ہدف کا تعاقب فرماتے رہے۔ امام خمینی(رہ) کی انتهک سعی و جدوجہد کے مختلف پہلوؤں اور جلوؤں اور دینی فکر کے حقیقی مظہر کو سامنے لانے کی مقدس جدوجہد میں سے ایک حج بیت اللہ کے فلسفوں، دروس، پیغامات اور سماجی اور سیاسی اثرات کو واضح کرنے کے ذریعے ان کا احیاء تها۔
اس موضوع پر امام خمینی(رہ) کے پیغامات اور بیانات کا ایک معتدبہ حصہ ابراہیمی(ع) اور محمدی(ص) حج کے احیاء سے متعلق ہے۔ طبیعی طور پر اہم ترین امر یہ ہے کہ حج بیت اللہ کے فلسفے اور اس کے اثرات کو اس کی مشکلات و توہمات سے نجات دینے اور استعماری طاقتوں اور اسلامی ممالک میں ان کے چنے گئے ایجنٹوں کو بدنام کرنے کے راستے سے حقیقت کا جامہ پہنایا۔
اس موقع پر ہم اس موضوع پر امام خمینی(رہ) کے عظیم پیغام کے ایک حصہ کو جانچتے ہیں۔ اس حصے میں تین نمایاں موضوعات شامل ہیں جن میں سے ہر ایک پر ہم تبصرہ کرتے ہیں۔
حج بیت اللہ کے سلسلے میں تفسیروں کے اندر ابہام
مسلمانوں کے بڑے فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ وہ معلوم کریں کہ حج بیت اللہ کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہ وہ اپنی مادی اور روحانی وسائل کا ایک حصہ اس کو قائم رکهنے کے لئے کیوں صرف کریں ۔
نا آگاہ اور بے اطلاع افراد اور متعصب تجزیہ کاروں نے اب تک اس کے فلسفے کی جو تصویر کشی کی ہے اس کے مطابق وہ ایک اجتماعی عبادت اور حج بشمول سیر و سیاحت کا سفر ہے۔ حج بیت اللہ کو اس سے کیا غرض ہے کہ انسان کو کس طرح زندگی گزارنی چاہیے اور کس طریقے سے فرد کا مقدس جدوجہد میں شریک ہونا ضروری ہے اور اسے کس انداز میں سرمایہ دار اور کمیونزم کی دنیاؤں کے مقابلے میں کهڑا ہو جانا ہے۔ حج بیت اللہ کو مسلمانوں کے حقوق اور مستضعفین کی متکبرین کے خلاف حفاظت و نگہداشت سے کیا لینا دینا؟ حج بیت اللہ کو مسلمانوں پر ذہنی اور جسمانی دباؤ ڈالے جانے کے مسئلے کو حل کرنے سے کیا مطلب؟ حج بیت اللہ کو اس سے کیا غرض ہے کہ مسلمانوں نے ایک عظیم قوت کی صورت میں تیسری عالمی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منوانا ہے؟ اس کے بجائے حج کو محض کعبہ اور شہر مدینہ کی سیاحت کرنے کا سفر ہونا چاہیے۔ تاریخ کے تمام ترادوار میں اسلامی معاشروں کے المیوں اور خطرات میں سے ، جنہوں نے انہیں ہمیشہ دهمکایا اور تہدید کی، ایک وہ تصورات اور تفاسیر ہیں جو حج بیت اللہ کی حقیقت اور اس کی ترقی و توسیع اور لوگوں کے درمیان پهیلاؤ سے مطابقت نہیں رکهتیں۔ انہی غلط توجیہات کی وجہ سے حقائق، تعلیمات، عرفانی عبادت،جہالت و جمود اور توہمات سے خلط ملط ہو جاتے ہین اور انہی کی وجہ سے حج ثمر بخشی اور تغیر وجود میں لانے کی صلاحیت میں عقب ماندگی اور سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ عبادتی سرگرمی جسے تمام مسلمانوں کو ایک واحد مقام پر ایک ٹهوس و موثر اسلامی اجتماع کی شکل دینا چاہیے اور اس سے قابل قدر معاشرتی اور سیاسی نتائج حاصل ہونے چاہیں ایک سیاحتی دورے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال لطف اندوز ہونے، تفریح کرنے اور عمارتوں کی تصاویر اور اپنی دل پسندشاپنگ کے ہمراہ اپنے اپنے ممالک کو واپس چلے جائیں ۔
امام خمینی(رہ) کے نقطۂ نظر سے یہ غلط اور نادرست تفسیریں دو گروہوں کی طرف سے سامنے آئی ہیں اور اب تک یہ صورت حال برقرار ہے۔ پہلا گروہ بے اطلاع لوگوں کا ہے: یہ اسلامی معاشروں کے وہ غیر مطلع مسلمان ہیں جو ضروری تفاہم اور علم کی محرومی کی بنا پر زیارت بیت اللہ کی تعریف کو ایک سیاحتی اور عبادی سفر میں محدود کر دیتے ہیں۔ علم سے محرومی اور جہالت ان افراد کو اس بات سے مانع ہے کہ وہ حج بیت اللہ کے فلسفے اور معاشرتی اور سیاسی اثرات کے ساته ساته اس کے نظریاتی اور روحانی اہداف و مقاصد کو سمجهیں۔
دوسرا گروہ وہ متعصب و مغرض تجزیہ کرنے والے ہیں جو یہ سعی کرتے ہیں کہ حج کے فلسفے کو اقتصادی، گروہی و جماعتی اور سیاسی مفادات کی نذر کردیں ۔ اس بات کو مد نظر رکهتے ہوئے کہ درست اور صحیح حج اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ گروہ اپنے مفادات اور امنگوں سے دست بردار ہو جائے یا یہ کہ اس کا مطلوبہ اور بار آور صورت میں ادراک نہ کرے، وہ اس عظیم عبادی کام کی اپنے گروہی اوہام اور خیال آفرینیوں کے مطابق توجیہ کرتے ہیں۔
آج یہ تجزیہ کار اور مفسرین کوشش کررہے ہیں کہ مذہب کے نام اور مسلمانوں کے بهیس میں لوگوں کی آرا کو ابتر اور درہم برہم کردیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اسلامی انقلاب کی کامرانی کے بعد ایسی فکری سرگرمیاں شروع کردی تهیں جن کا مقصد حج بیت اللہ کے معاشرتی اور سیاسی اثرات کی مخالفت کرنا تها۔ آج بهی یہ لوگ اس حساس موضوع اور مسلمانوں کے اتحاد اور اسلامی فرقوں کی وحدت جس کی از بس ضرورت ہے کہ مخالف ہیں اور حج کے اسی انفرادی اور تفریحی پہلو پر اعتقاد رکهتے ہیں۔
یہ دو گروہ نامناسب اور خلاف مصلحت نتائج اور توجیہات پیش کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت کریں کہ حج بیت اللہ اور معاشرتی اور سیاسی امور میں مصروفیت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ بقول ان کے یہ ضروری نہیں ہے کہ لوگ استکباری طاقتوں کے خلاف مقدس جدوجہد میں مشغول ہو جائیں یا مسلمانوں کو عالمی برتری دلانے کے لئے مستضعفین کے حقوق کی بحالی کی کوشش کی جائے۔ ان کے نقطۂ نظر سے اسلامی ممالک میں استعمار کے انتخاب کئے گئے مزدوروں اور ایجنٹوں کی مخالفت یا ان سے جنگ ایک نادرست خیال ہے یا ایک جملے میں حج کے تمام فرائض اورذمہ داریاں محض انفرادی، روحانی اور اخلاقی امور کے اندر محدود ہیں۔
سچے اور حقیقی حج کے اندر چهپے ہوئے حقائق
حج سے متعلق غلط توجیہات کے متعلق اخطار و انذار سے متعلق امام خمینی(رہ) کا یہ نظر یہ ہے کہ حقیقی حج بیت اللہ کو حج کی ان باطل تفاسیر اور توجیہات سے نبردآزما اور ان کا مخالف ہونا چاہیے۔ وہ فرماتے ہیں :
’’درآنحالیکہ حج بیت اللہ انسانوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے اور گهر کے مالک سے مربوط کرنے کے لئے ہے اور حج صرف اعمال، دعاؤں اور الفاظ کا ایک سلسلہ نہیں ہے۔ کوئی شخص الفاظ، جملات اور تشددانہ حرکات کے ذریعے خدا تک نہیں پہنچتا۔ حج بیت اللہ الہٰی تعلیمات کے دل (وسط) میں موجود ہے جس سے آدمی کو زندگی گزارنے کے تمام پہلوؤں پر مبنی اسلام کی پالیسی کے متن کو ڈهونڈ نکالنا چاہیے۔ حج بیت اللہ ایک ایسے معاشرے کا معمار ہے جس سے مادی اور روحانی نقائص و معائب دور کئے گئے ہوں۔ حج بیت اللہ فرد کی محبت سے بنائے گئے تمام مناظر اور دنیاوی زندگی میں ایک مکمل معاشرے کا مظہر اور تکرار ہے اور حج کے مناسک زندہ لوگوں کے مناسک ہیں اور وہ یہ سمجهتے ہیں کہ کسی بهی نسل اور قوم سے اسلامی اقوام کے معاشرے (رسول خدا(ص) کی قوم ’’امّہ‘‘) کو ابراہیمی بن جانا چاہیے تاکہ وہ ’’امّہ‘‘ کے اجتماع سے منسلک ہوکر ایک متحدہ قوت بن جائے۔ حج بیت اللہ توحیدی انسان کو منظم کرتا ہے، ریہرسل کراتا ہے اور اس کو ثابت قدم بناتا ہے۔ حج بیت اللہ مسلمانوں کی مادی، روحانی، مخفی صلاحیتوں اور استعدادت کے انعکاس کا مقام ہے۔ حج بیت اللہ وہ پر برکت قرآن ہے جس سے تمام لوگ مستفید ہوتے ہیں لیکن اگر دین کے مفکرین اور فضلا اور وہ لوگ جو اسلامی قوم ’’امہ‘‘ کے دکهوں اور دردوں سے آشناہیں اس کی تعلیمات کے گہرے سمندر میں غوطہ ورہوں اور اس کی نزدیکی و قرب اور اس کے معاشرتی اصولوں اور پالیسیوں میں ڈوب جانے سے نہ ڈریں تو وہ علم و دانش اور رہنمائی ترقی اور آزادی کے لئے بے شمار موتی حاصل کرلیں گے اور ابد تک علم و دانش کے ذلاّل و شفاف چشموں سے سیراب ہوں گے۔‘‘
امام خمینی(رہ) ان توضیحات میں حج بیت اللہ کے فلسفے اور اثرات کو بیان کرتے ہیں اور مختصر، صاف، واضح اور گہرے جملات کے ذریعے اس عظیم الہٰی عبادی عمل اور اس کے اثرات کی کثرت اور ثمرباری پر روشنی ڈالتے ہیں۔
امام خمینی(رہ) حقیقی اور اصلی حج بیت اللہ کی توضیح دینے کے فوراً بعد اس عظیم عبادی عمل اس کے کثیر معاشرتی اور سیاسی اثرات کی یادوں میں کهو جانے اور اس کے تعطل پر ناخوشی و ناراضگی ظاہر کرتے ہیں :
’’مگر کیا کیا جائے اور ہم اس بڑے غم کو لے کر کہاں جائیں کہ حج بیت اللہ کو قرآن عظیم کی طرح ہی اجنبی بنا دیا گیا ہے اور اسی حد تک زندگی ، کمال اور عظمت کی کتاب کو ہمارے خود ساختہ پردوں کے درمیان چهپا دیا گیا ہے اور تخلیق کے معمے کے اس مخزن کو ہماری مسخ شدہ فکروں کے انبار تلے دفن کردیا گیا ہے اور اس کی رہنما، زندگی بخش اور معمار زندگی فلسفہ کو خوف و دہشت اور موت و قبر کی زبان کی حد تک محدود کردیا گیا ہے۔ حج کا بهی اسی طرح کا انجام بنا دیا گیا ہے۔ ایسا انجام کہ دسیوں لاکه مسلمان ہر سال حج کرنے کو جاتے ہیں اور حضرت ابراہیم(ع) اور حضرت حاجرہ(س) کے نقش ہائے پائے مبارک پر قدم رکهتے ہیں پهر بهی کوئی اپنے آپ سے یہ نہیں پوچهتا کہ پیغمبر ابراہیم(ع) اور حضرت محمد(ص) کون تهے؟ اور انہوں نے کس کام کی تکمیل کی تهی اور ان کا مقصد اور ہدف کیا تها؟ وہ ہم سے کیا توقع رکهتے ہیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ واحد چیز ہے جس کے متعلق وہ نہیں سوچتے۔ یقیناًایک بے روح بے حرکت اور بے تحریک حج ذمہ داری سے انکار، بغیر وحدت و اتحاد اور ایک ایسا حج جو کفر اور شرک کے انکار کی دعوت نہ دیتا ہو، حقیقی حج نہیں ہوتا۔
مختصر یہ کہ تمام مسلمانوں کو حج اور عظیم قرآن کے زندہ کرنے کے لئے ضرور جدوجہد کرنی چاہیے اور ان دونوں کو اپنی زندگی کے دائرہ کار میں بحال و برقرار کر دینا چاہیے۔ اسلامی محققین کو چاہیے کہ وہ فلسفہ حج کو درست طور پر پیش کریں، اس کی توجیہ کریں اور ان توہمات اور انحرافات سے چهٹکارا حاصل کریں جو شہنشاہوں سے وابستہ خود ساختہ دینی دانشور وجود میں لائے ہیں۔
امام خمینی(رہ) کے پیغام کے اس حصے میں بڑی دردواندوہ بهری گفتگو ہے جو حج کو اجنبی بنا دیئے جانے اور اس عظیم عقیدتی عمل کے عظیم فلسفوں ، اثرات اور قدروں کو دشت فراموشی کے سپرد کئے جانے سے متعلق ہے۔ یہ اجنبی سازی اتنی بڑی ہے کہ یہ قرآن کریم کی اس اجنبی سازی کو بهی چیلنج کرتی ہے کیونکہ اسلامی ممالک کے اندر کائناتی اور آفاقی تعلیمات پر مبنی حق و حقیقت کی اس کتاب کو روحوں کے لئے ایصال ثواب اور قرأت کی کتاب، جس سے افراد کی موت اور ان کی تدفین کی رسومات یاد آتی ہیں، بنا دیا گیا ہے۔ درآنحالیکہ قرآن زندگی کی کتاب ہے نہ کہ موت کی اور وہ نہ صرف زندہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے بلکہ یہ معاشرتی اور سیاسی زندگی اور اصولوں کی رہنما ہے جو زندگی کے تمام شعبوں بشمول ثقافت، اقتصاد اور سیاست پر ناظر ہے۔
والسلام – التماس دعـــا