ایسا نہیں ہے کہ اگر ایک طبقہ مثلا تاجر خود اپنی اصلاح کرتا ہے خود نیک اور صالح بنتا ہے دوسروں سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے۔ لیکن یہ دو گروہ ایسے ہیں کہ اگر یہ نیک اور صالح ہوں گے سماج کی اصلاح ہوگی۔
اور اگر برعکس إذَا فَسَدَ العَالِمُ فَسَدَ العَالَمُ یہ فاسد ہوں گے پورا سماج فاسد ہوگا۔ یہ عالم صرف میں ہی نہیں ہوں آپ بھی ہیں ہم سب عالم ہیں۔ آپ سب علماء کا جز ہیں اور اگر خدا نخواستہ فاسد ہو گئے عالَم فاسد ہو جائے گا۔ اور صالح رہیں گے عالَم کی اصلاح ہو گی۔ ایک سماج کی سعادت اور شقاوت اس کے مربیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اور وہ مربی آپ لوگ ہیں۔ وہ ]یونیورسٹی والے] بھی ایک طریقے سے اور آپ [علماء دین] بھی ایک طریقے سے سماج کی ترییت کا وظیفہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ طے ہو کہ تربیت صرف علمی تربیت ہے آپ ایک ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ڈاکٹر کیسا ہونا چاہیے۔
یہ ڈاکٹر کل ایک کاسب اور تاجر ہو جائے گا۔ اس طریقے سے کہ مریض مرتا رہے گا جب تک اس کی فیس ادا نہیں ہو گی اس کو دیکھ نہیں سکتا۔ کتنا اچھا ڈاکٹر تیار ہوا ہے طب کے اعتبار سے نہایت ماہر ہے لیکن چونکہ اخلاق کے اعتبار سے صفر ہے مہذب نہیں ہے۔ متقی نہیں ہے، خداشناس نہیں ہے، یہ ڈاکٹر مریض کو پریشان کرتا ہے آج ایک نسخہ دیتا ہے اور دوا خانہ سے طے کئے رہتا ہے کہ دوائی کو مہنگا بیچ کر اس کی کمیشن ادا کرتے رہیں۔ آج اس نسخہ نے کوئی فائدہ نہیں کیا کل دوسرا نسخہ لکھے گا۔ طبیب اچھا طبیب تھا طبابت کے اعتبار سے، لیکن تربیت میں کمزوری تھی۔ ایک انجینئر کو آپ تعلیم دیتے ہیں انجینئر اپنے علم میں بہت اچھا تھا لیکن جب مثلا ایک نقشہ دینا چاہتا ہے اس طریقے سے نقشہ پیش کرتا ہے کہ مفید اور صحیح نہ ہو لیکن زیادہ منفعت کا حامل ہو۔ اسی طریقہ سے دوسری چیزیں۔ ہماری صنف میں بھی اگر یہ طے ہو کہ یہی ملائیت ہونا چاہیے۔ یہ ملاں تو بہت اچھا ہے نہایت سمجھدار آدمی ہے کتاب اور سنت کو بہت اچھے سے سمجھتا ہے۔ لیکن اگر تقوی اس کے پاس نہ ہو یہی کتاب و سنت لوگوں کی گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔
صحيفه امام، ج7، ص: 471