حج کمیٹی اور وزارت ارشاد اسلامی کے اہلکاروں سے امام کا خطاب

حج کمیٹی اور وزارت ارشاد اسلامی کے اہلکاروں سے امام کا خطاب

حج کا عظیم فلسفہ اس کا سیاسی پہلو ہے

آج مسلمان سفر حج کو صرف ایک خشک اور اسلامی فوائد سے خالی عبادت سمجھتے ہیں حج جس روز سے  وجود میں آیا، اس روز سے اس کی سیاسی اہمیت اس کے عبادی پہلو سے کئی گنا زیادہ رہی ہے۔

حج کا فلسفہ
حج کا عظیم فلسفہ اس کا سیاسی پہلو ہے کہ جس کو دبانے کے لیے چاروں طرف سے استعمار کا ہاتھ کوشاں ہے۔ اور افسوس سے استعمار کی منفی تشہیری مہم مسلمانوں پر کافی حد تک اثر انداز بھی ہوئی ہے۔ آج مسلمان سفر حج کو صرف ایک خشک اور اسلامی فوائد سے خالی عبادت سمجھتے ہیں حج جس روز سے  وجود میں آیا، اس روز سے اس کی سیاسی اہمیت اس کے عبادی پہلو سے کئی گنا زیادہ رہی ہے۔ خود اسکا سیاسی پہلو سیاست کے علاوہ ایک عبادت ہے۔

 

حجاج اور اسلامی ممالک کے حالات کا جائزہ
حج کے دوران جو لوگ مختلف ممالک سے آتے ہیں یا علماء کرام جو حج میں شرکت کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ ہر سال دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشکلات کا جائزہ لیں کہ مسلمان کس حالت میں ہیں۔ مسلمانوں اور ان کی حکومتوں کے درمیان کیسے حالات ہیں۔ اسلامی حکومتوں اور دوسری شیطانی حکومتوں کے ساتھ کیسے روابط ہیں۔ خود مسلمان قوموں کے درمیان کیا پوزیشن ہے۔ علماء کہ جو مختلف اسلامی علاقوں میں رہتے ہیں ان کے حج کی نسبت کیسے نظریات ہیں۔ یہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں غور و فکر ضروری ہے۔ اور حج انہیں امور کے لیے ہے۔ حج اس لیے ہے کہ مسلمانوں کی ایک سال کی مشکلات کی جانچ پڑتال کی جائے۔ اور ان کی مشکلات کو برطرف کیا جائے۔


جیسا کہ بعض علاقوں کے علماء اور مولوی حضرات یہ کہتے ہیں کہ حج میں سیاسی میدان سے خارج ہونا چاہیے یہ لوگ رسول خدا [ص] کو محکوم کرتے ہیں۔ آئمہ معصومین [ع] کو محکوم کرتے ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ سفر حج کن مسائل کے لیے تھا۔ مسلمانوں کی کن مشکلات کے حل کے لیے تھا۔ حج اس لیے تھا کہ مسلمانوں کی مشکلات کو درک کیا جائے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حج اس لیے تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اخوت اور مودت کو ایجاد کیا جائے۔ جب حج پر جاو ان مسلمانوں کو بیدار اور متحد کرو۔

 

حج اور مسلمانوں کا بیدار اور متحد ہونا
وہ حج جسے خداوند عالم چاہتا ہے اور وہ حج جسے اسلام نے ہم سے چاہا ہے یہ ہے کہ جب حج پر جاو تو مسلمانوں کو بیدار کرو انہیں آپس میں متحد کرو۔ انہیں یہ سمجھاو کہ ایک کروڑ مسلمان کیوں مٹھی بھر صہیونیوں کے ماتحت رہیں؟ تمام مشکلات اس وجہ سے ہیں کہ مسلمانوں کو اس راستے سے منحرف کر دیا گیا ہے جو اسلام نے بیان کیا ہے اور حتی اگر ایک مجلس بھی برپا کریں یقینا آپ نے سنا ہو گا کہ علماء نے ایک مجلس منعقدکی جس میں انہوں نے محکوم نہیں کیا وہ حاضر نہیں ہوئے کہ افغانستان کہ جس پر سوئیت یونین نے قبضہ کرنے کی کوشش کی، کے بارے میں اتنا کہہ سکیں کہ یہ کام صحیح نہیں ہے۔ اس قدر بھی یہ عیسائی علماء حاضر نہیں ہوئے کہ اتنا کہہ سکیں کہ یہ جو افغانستان کے ساتھ ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہے۔ جب ان کے علماء اس طرح کے ہیں۔ ہم اس سے پہلے یہ سوچ رہے تھے کہ ان عیسائیوں کے علماء امریکی ہیں لیکن اب سمجھ میں آیاکہ وہ امریکی بھی ہیں اور شوروی [سوئیت یونین سے وابستہ] بھی۔ اور مسلمان علماء تو ان سے بھی بدتر۔ وہ علماء جو مسلمانوں کو صہیونیوں کے مدمقابل یک آواز نہیں دیکھنا چاہتے، امریکہ کے خلاف ایک کلمہ کہنا پسند نہیں کرتے یہ لوگ امریکیوں کے ان علماء سے کمتر نہیں ہیں جو کہتے ہیں کہ خاموش رہنا چاہیے یہ علماء جو امریکہ کے طرفدار ہیں یہ خود عیسائی علماء سے کمتر نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو بیدار ہونا چاہیے۔ ان ایک ارب مسلمانوں کو بیدار ہونا چاہیے کہ ان دو طاقتوں کے دھوکے میں نہ آئیں۔

 

اگر دس دن تیل اسرائیلیوں پر بند کر دیا جائے، تو وہ مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے
کیا اسلامی ممالک کے لیے یہ ننگ و عار نہیں ہے کہ اسرائیل آئے اور فلسطینیوں پر حکومت کرے؟ ان پر ظلم و ستم کرے؟ لبنان میں یہ سب فتنہ و فساد پھیلائے  اور ایک کروڑ مسلمان بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں؟ یہ مسلمان کس چیز سے ڈر رہیں ہیں؟ یہ کیوں اتنے بے غیرت ہو گئے ہیں؟ مشرق و مغرب کی رگ حیات ان کے ہاتھ میں ہے۔ تیل مغرب کی رگ حیات میں دوڑنے والا خون ہے۔ اگر دس دن تیل کو ان پر بند کر دیا جائے، گھٹنے ٹیک دیں گے آپ کے آگے وہ۔ اور اس رگ حیات میں دوڑنے والا خون اسلامی ممالک کے پاس ہے۔

اس کے باوجود کہ اسے ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں پھر ان کی منت سماجت بھی کرتے ہیں۔ یہ کون سا طریقہ ہے؟ یہ کون سی مصیبت ہے؟ مسلمانوں کے لیے یہ مصیبت نہیں ہے کہ اپنا سب کچھ ان کو دے دیں اور اس کے بعد وہ بڑی منت اور سماجت کے ساتھ اسے قبول کریں؟ جب یہ طے پا جائے کہ مسلمان ان الہی مسائل کی طرف توجہ نہ کریں قرآنی مسائل کی طرف توجہ نہ کریں اسلامی احکام  کو نظر انداز کر دیں، اسلام کی وحدت کی طرف دعوت کو پامال کر دیں تو مجبورا ایسا ہو گا کہ اپنا سب کچھ انہیں دے دیں اور ان کے احسان مند بھی رہیں کہ اسے قبول کر لیں۔ ہمیں بیدار نہیں ہونا چاہیے؟ انہیں ایران سے عبرت حاصل نہیں کرنا چاہیے؟ آج یہ دنیا کے تمام بڑے بڑے ممالک سوئیت یونین سے جدا ہوئے ہیں کہ جو سب مل کر عراق کی مدد کر رہے ہیں امریکہ، فرانس یہ سب فساد کا مرکز ہیں وہ ملک جو دعوی کرتے ہیں کہ ہم آزادی کے طرفدار ہیں انہوں نے دہشتگردوں کو یہاں جگہ دی ہے کہ وہ صدام کی سپورٹ کریں اور اس سپورٹ پر فخر بھی کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کو منہ کی دیں اور اگر جمع ہو جائیں تو دے بھی سکیں گے۔ اور پوری دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے، امریکہ فرانس اور دیگر سپر پاور طاقتوں نے ایران سے طمانچہ کھایا ہے اسلام کی برکت سے، اور اس کے بعد بھی یہ اسلامی ملت ہر گز اجازت نہیں دے گی کہ ان کا راستہ ہمارے ملک کی طرف کھلے۔

 

 
تاريخ: 1983/8/21

ای میل کریں