سائنس تجربے اور حواس کی بنیاد پر قدرت میں پائے جانے والے حقائق کا انکشاف اور انسان کو قدرتی اشیا سے استفادے کی روش سے آشنا کرتی ہے ۔ آسمان و زمین اور مجموعی طور پر کائنات اور انسان، تاریخ اور گزشتہ اقوام و مذاہب اور انسان کی ذاتی اور اس پر عارض ہونے والی خصوصیات وغیرہ کے بارے میں قرآن مجید کے بیانات ایک اعلیٰ مقصد کے لئے ہوئے ہیں اور وہ ہے خدا کی طرف انسان کی توجہ اور آخرت کی سعادت اور قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے دنیوی امور کی اصلاح۔ البتہ قرآن ان کی ایسی تفصیلی شناخت نہیں چاہتا کہ انسان مندرجہ بالا مسائل کے تمام پہلووں اور گہرے نکات اور موضوعات سے آگاہ ہوجائیں، ان چیزوں کے بارے میں انسان کی سوچ اور حقیقت کا انکشاف خود فرد کی علمی کد و کاش کا نتیجہ ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کائنات اور انسان سے متعلق کسی مسئلے کے بارے میں مسلمان مفکرین کا نظریہ چاہے حقیقت سے مطابقت رکھتا ہو یا اس کا مخالف ہو ان کی اپنی رائے ہے، اسے دین سے نسبت نہیں دے سکتے۔
’’ہم اپنی نشانیوں کو کائنات میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تاکہ ان کے لئے واضح ہوجائے کہ وہ حق پر ہے اور کیا تمہارے رب کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز کا گواہ اور اسے دیکھنے ولا ہے۔ ‘‘(سورہ فصلت، آیت ؍۵۳)
اگر سائنسی علوم دین اور دینی مسائل کا پیش خیمہ ہوتے تو انبیاء و رسل ؑ کے لئے ضروری ہوتا کہ وہ ذی المقدمہ بیان کرنے سے پہلے وسیع پیمانے پر ان کی تمہیدات پر بحث و تمحیص کرتے، جب کہ انبیاء فطرت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کو خدا اور قیامت کی جانب دعوت دیتے تھے اور اگر وہ کہیں سائنسی مسائل کی طرف اشارہ کرتے تو یہ محض ان کی فطرت کو بیدار کرنے کے لئے تھا۔ اگر اسلام عقیدہ رکھنے والے بعض مسلمان عمرانیات، جغرافیہ و تاریخ، مختلف فنون، طب، ریاضیات، فزکس اور کیمسٹری جیسے علوم کی طرف راغب ہوئے ہیں اور ان علوم میں ان کا شمار اپنے زمانے کے اصحاب رائے میں ہوتا تھا تو اس کا ان کے اسلامی ہونے سے کوئی ربط و تعلق نہیں ہے اگرچہ نظریات وافکار بیان کرنے میں انسان اور کائنات کے بارے میں ان کی توحیدی شناخت کا بھی عمل دخل رہا ہے۔ لیکن محض اس تاثیر کی بناپر ہم انہیں اسلامی عمرانیات، اسلامی جغرافیہ اور اسلامی طب وغیرہ کا نام نہیں دے سکتے، اس لئے کہ مسلمان دانشوروں نے اپنی فکر اور تجربے کی بنیاد پر جو کچھ حاصل کیا ہے وہ ان کی علمی کاوشوں کا ثمر ہے۔ ان کے علمی اقدام کو ایک خاص جہت اور فکر عطا کی ہو یا علم سے استفادے کی روش پر اثر انداز ہوا ہو ۔ ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ سب امام خمینیؒ کے اس جملے میں یک جا نظر آتا ہے، آپ نے فرمایا ہے:
’’انبیاء کے تمام مقاصد کی بازگشت اللہ تعالیٰ کی جانب ہے۔۔۔۔ انبیاء حق تعالیٰ کی رحمت کے مظاہر ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تمام لوگ اچھے ہوں اور سب اللہ تعالی کی معرفت حاصل کریں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۴۳۷)
’’تمام ادیان اصلاح کے لئے آئے ہیں، انسانوں کی اصلاح کے لئے آئے ہیں ۔ ان کا بنیادی موضوع بحث انسان ہے وہ کسی اور شئے کے بارے میں سوچتے ہی نہیں بلکہ صرف انسان کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ اس لئے کہ تمام کائنات کا نچوڑ انسان ہی تو ہے، انسان ایسی مخلوق ہے جو تمام مخلوقات عالم کا نچوڑ ہے۔۔۔۔‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۰، ص ۷۱)