آستان قدس رضوی کی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایک علمی خصوص نشست بہ عنوان "دنیائے اسلام کے سیاسی حالات اور ان کی بنیاد وتوقعات" آستان قدس رضوی کے غیرایرانی زائرین کے امور کی مدیریت کی جانب سے حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید مہدی علی زادہ موسوی کی موجودگی میں آستان قدس رضوی کے اسلامی تحقیقات فاؤنڈیشن میں عرب جوانوں اور ماہرین کےلیے خصوصی طور پر منقعد ہوئی ۔
اس نشست کی ابتداء میں دنیائے اسلام کے سیاسی افکار کے موضوع سےگریجویٹ اور حج وزیارت کے ریسرچ سینٹر کے مدیر حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید مہدی علیزادہ موسوی نے تقریر فرمائی ۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فقط سلفی گروہ تنہا نہیں ہے بلکہ اس جیسے 40 گروہ اور بھی اسلامی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ،کہا: ان تکفیری و سلفی گروہوں میں سے ہر ایک گروہ سے مقابلہ کرنے کے لیےسب سے پہلے ان کے عقیدے کو سمجھنا ضروری ہے اور اس سلسلے میں مختلف روش و راہ حل کے بارےمیں تحقیق ہونی چاہیے ۔
حج و زیارت سینٹر کے مدیر نے مزید کہا: مصر میں جدید سلفیت، افکار وہابیت اور افکار سید قطب ان دو تفکرات کے مخلوط ہونے کا نام ہے، جس وقت سید قطب کے قتل ہونے کے بعد ان کا بھائی سعودی عرب میں وارد ہوا، اس نے سید قطب کے کفر و الحادی افکار کو پھیلایا۔ سید قطب کی گفتگو کا نتیجہ و نچوڑ نقطہ دلالت کرتا ہے کہ حکومت میں بھی توحید ہونی چاہیے ۔
توحید قصوری- توحید قبوری
انہوں نے اظہار کیا: محمد قطب جس وقت سعودی عرب میں وارد ہوا تو اس کا پہلا نعرہ یہ تھا کہ اس طرح کی حکومتیں ظالم و جابر حکومتیں ہیں اور جس توحید کی سعودی حکومت میں تبلیغ و ترویج ہورہی ہے یہ توحید قبوری ہے۔
یعنی قبروں کی توحید، یہ لوگ اس کے بجائے کہ قصروں کی مخالفت کریں اور اس کی اصلی بنیاد توحید قصوری ہونی چاہیے ،توحید قبوری ہوگئی ہے اور صاحبان قبور سے مقابلہ کررہے ہیں۔
حجت الاسلام والمسلمین علیزادہ موسوی نے سلفیت فرقہ کے گروہوں کو اس طرح بیان فرمایا اور کہا: سلفیت تکفیری، جہادی اور سیاسی موضوعات کے لحاظ سے بنیاد ی مرکز نجد (وہابیت و تکفیری)، مصر (جہادی) اور بر صغیر (تبلیغی و سیاسی) اعتبار سے تقسیم کی جاسکتی ہے۔
تکفیری جہادی افکار کا رجحان
انہوں نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ محمد قطب نے اپنے شاگردوں کی دو نظریات کی بنیادہ پر تربیت کی، کہا: تکفیری نظریہ کا پہلا رجحان و تمائل جہادہے، نظریہ جہادمصر سے اس وقت سعودی عرب میں وارد ہوا کہ جب وہابیت افکار میں صرف تکفیریت تھی، یہ نظریے آپس میں مخلوط ہوگئے اور پھر پاکستان و افغانستان و الجزائر و عراق اور دوسرے علاقوں میں اسی تکفیری جہادی نظریے کے ساتھ پھیل گئے۔
اس دنیائے اسلام کے سیاسی امور کے محقق نے اس بیان کے ساتھ کہ دنیائے اسلام کی زیادہ تر مشکلات کہ جو عصر حاضر میں موجود ہیں وہ ابن تیمیہ کے نظریات و اعتقادی بنیادیں ہیں، کہا: ظاہرا اہم ترین تحول وانقلاب کا سبب کہ جو اسلامی دنیا میں تکفیری نظریات کو ظاہر کرنے اور پھیلانے کا سبب بنا، وہ اسلامی دنیا میں موڈرن انقلاب و تحول تھا۔ یعنی اسلامی ممالک میں موڈرن حالات کی ترقی نے کسی حد تک دنیائے اسلام میں افراطی اور شدت پسندی کو ابھارا ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین علیزادہ موسوی نے وہابیت و سلفیت کے درمیان رابطے کو اس طرح بیان کیا: ان دونوں نظریوں کے درمیان رابطہ عام خاص مطلق کا ہے۔ سلفیت عام ہے کہ جس کا اہم ترین مصداق وہابیت ہے۔
انہوں نے ہندوستان میں سلفیت کے بارے میں کہا: شاہ ولی اللہ دہلوی، محمد بن عبدالوہاب کے ہم عصر تھے، عبدالوہاب اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے درمیان فرق یہ ہے کہ عبدالوہاب اعتقادات میں احیاء کا معتقد تھاجب کہ ولی اللہ دہلوی حدیثی رجحان رکھتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ اگر ہم چاہیں کہ پیغمبر اکرم کی سنتوں کو احیاء اور زندہ کریں تو ہمیں چاہیے کہ ان کی احادیث کو زندہ کریں اور وہ وحدت کے متعقد تھے یہ نظریہ وہابیت اور عبدالوہاب سے معتدل تر ہے۔
دیوبندیت ایک مذہب
حجت الاسلام والمسلمین علیزادہ موسوی نے مذہب دیوبندی کے وجود میں آنے کے بارے میں کہا: یہ مذہب شاہ ولی اللہ دہلوی کے شاگرد اور مرید علماء کے مدرسہ دارالعلوم کی بنیاد رکھنے کی وجہ سے وجود میں آیا اور ابتداء میں مذہب شیعہ سے کوئی زیادہ اختلاف نہیں رکھتا تھا، دیوبندی کی اصلی معتدل اور افراطی و شدت پسند شاخ و شعبہ کہ جو در واقع طالبان اور ان سے بھی زیادہ شدت پسند جیسے سپاہ صحابہ، جیش محمد اور لشکر جھنگوی کہ جو تین شیعوں کے قتل کرنے کی جزا پر جنت کے واجب ہونے کے معتقد ہیں، کے معنوی باپ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: وہابیت کے نزدیک دیوبیدی فرقہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ ان کو الیاء شیطان مانتے ہیں۔ سلفی تکفیری اور سلفی جہادی کو ایک تسلیم کرنا ایک دھوکا تھا کہ جو بعد میں ایک ہونے کا سبب بنا کہ جس سے اور زیادہ خطرناک حالات پیدا ہوگئے اور سلفیت تکفیری سعودی عرب میں عبادت میں تو حید کے معتقد تھے کہ جب مصر میں سلفیت جہادی حکومت میں بھی توحید کے معتقد ہیں۔