ممکن ہے یہ سوال اٹھے کہ روایات کے مطابق عصر غیبت میں حضرت امام مہدی (ع)کے قیام کیلئے زمین کو ہموار کرنے والا انقلاب اصلاحی ہے جبکہ دوسری روایتیں جو کہ رسول اکرم(ص) اور ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں ان کی روسے حضرت ولی عصر(عج) اس وقت ظہور فرمائیں گے اور انقلاب شروع کریں گے کہ جب دنیا ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر اصلاحی اور عوامی انقلاب کا وجود میں آنا اور تحقق پانا دو بنیادوں پر استوار ہے کہ جب تک یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہ ہوں انقلاب آنا ممکن نہیں ہے۔
۱۔ سماج کے اوپر ظالم وستمگر حکومتوں کی جانب سے ظلم وبگاڑ کا غلبہ ہو۔
۲۔ سماج کے ہر طبقہ میں موجودہ صورت حال کے متعلق عام آگاہی اور بیداری ہو۔
یہ ہر اصلاحی انقلاب کے برپا ہونے کا فلسفہ ہے اور اس حقیقت کی روشن مثال ایران میں امام خمینی (ره)کی رہبری میں اسلامی قیام اور انقلاب کا بر پا ہونا ہے جس کے رونما ہونے میں یہ دونوں امر بنیادی حیثیت رکھتے تھے اگر شاہ اور اس کے کارندے عدالت کے ساتھ پیش آتے اور ان کا رویہ عوام کے ساتھ صحیح ہوتا تو نہ امام خمینی (ره) اور نہ ہی عوام کسی کو بھی انقلاب کی ضرورت محسوس ہوتی اسی طرح اگر شاہی ظلم کے باجود عوام اس سے بے خبر ہوتے تو بھی انقلاب ممکن نہ تھا۔
طویل مدت کے درمیان امام خمینی (ره) کے جہاد کی مختلف راہوں سے خود آپ کے اور آپ نے با وفا اور شجاع ساتھیوں نے عوام کو باخبر کیا اور انقلاب کی پہلی کرن سنہ ۵۷ شمسی میں ساطع ہوئی اور عوام کی آگاہی جس درجہ زیادہ ہوتی تھی انقلاب وقیام کا دامن اتنا ہی وسیع ہوتا جاتا تھا یہاں تک کہ عوام کی شناخت کے وسیلے اور عمیق ہونے کی وجہ سے انقلاب کی آواز پورے ملک پہنچ گئی اور بالآخر ستمگروں اور سرکشوں کی عمر چراغ گل ہوگیا۔
امام زمانہ (ع) کا مقدس عالمی انقلاب بھی ایک اسلامی انقلاب ہے جو عوام کی حمایت اور ان کے استقبال سے عالمی افق پر ابھرے گا وہ بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں ہے جس درجہ ظلم وفساد زیادہ ہو اور اسی درجہ عوام میں آگاہی وبیداری عمیق ہو تو اس سے حاصل انقلاب میں وسعت بھی اس درجہ زیادہ ہوتی ہے اور جہاں تک حضرت امام مہدی (ع) کے نجات بخش انقلاب کی بات ہے تو پروردگار عالم کی مشیت اور مرضی کی بناپر ظالموں ، کافروں اور مستکبروں کے خلاف ایسی عظیم اور عالمی تحریک اٹھے گی کہ الٰہی سنت کے مطابق ان دونوں مقدموں کو وجود میں لانے والا بھی عالمگیر ہوگا تا کہ ہر جگہ ایک حقیقی انقلاب برپا کرے اور جلدی ہی دنیا کے تمام عوام اس کے گرویدہ ہوجائیں اسی بنیاد پر ائمہ معصومین (ع) نے خبر دی ہے کہ جب زمین ظلم وفساد سے پر ہوجائے اور امور پر نگراں افراد عوام کا استحصال کرنے کیلئے قتل وغارت کرنے لگیں ، ان سے جانی اور مالی تحفظ کو سلب کرلیں، حق پرست عدالت خواہ افراد کیلئے جینا مشکل کردیں ، غضب یا حیلہ اور دھوکے فریب کے ذریعے اقوام کو اپنی شیطانی خواہشات کی تکمیل کیلئے مجبور کردیں اور انہیں انسانی فطرت سے یا ان پر سراسر مادی زندگی مسلط کرکے معنویات اور اخلاق کو ان کیلئے بے معنی کردیں تو اس وقت پروردگار عالم ایسی ظلم وفساد سے بھری دنیا کے بطن سے ایسی قوم کو تیار کرے گا، اس کی مدد کرے گا اور ایک کامیاب انقلاب کیلئے تمام وسائل، مقدمات اور ضروری چیزیں فراہم کرے گا، نیز، عادل ودانا قائد جو اہل قم سے ہوگا ایک حق پرست امت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوگا اور اس تحریک اور مقدس انقلاب کے ذریعہ عدالت طلبی اور بیداری کی آواز پوری دنیا میں بلند ہو جائے گی۔ دنیا کے عوام اسلام کی اصالت اور مکتب تشیّع کے برحق اور نورانی پیغام (یعنی ہر دام اسیری اور قید شیطانی سے رہائی، خالص حیات تک رسائی اور شرک وسرکشی سے متأثر نہ ہونا ہے) سے آشنا ہوجائیں گے اور بتدریج یہ آگاہی زیادہ ہوتی جائے گی یہاں تک کہ حضرت امام رضا (ع) کی حدیث کے مطابق ’’خداوند عالم قم جو کہ اس بیداری کا مرکز ہوگا پوری دنیا پر مشرق سے لے کر مغرب تک حجت تمام کردے گا اور یہ امر امام عصر حضرت مہدی (عج) کے ظہور تک جاری رہے گا‘‘۔(سفینۃ البحار، ج ۲، ص ۴۵، مادۂ قم)
یہ دو عنصر یعنی عالمگیر ظلم وگمراہی اور بیداری، عمومی توجہ، فکری ارتقا، دنیا کو ایک عظیم اور ہمہ گیر بیداری کے دہانے پر لاکھ کھڑا کردے گا اور اہل زمین کو ایک برحق مصلح کا منتظر بنا دے گا اس وقت پروردگار عالم اس وجود مقدس کی غیبت کو ختم کردے گا اور دنیا کی نگاہوں کو آپ کے ظہور پر نور سے منور وروشن کردے گا۔