عدالت طلبی اور جہاد کے احیاء کے حوالے سے حضرت امام(ره) کا ایک نمایاں ترین کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے شہادت کی طلبگاری اور فداکاری کا جذبہ اسلامی معاشرے میں زندہ کردیا۔ ایران اور دیگر اسلامی معاشروں میں مادیات کے تسلّط نے لوگوں کا تعلّق معنویات سے منقطع کردیا تھا اور راہ خدا اور معنویات کیلئے فداکاری کرنے کا جذبہ ان سے چھین لیاتھا۔ ایسے افراد خال خال تھے جو دین اسلام کے عظیم المرتبت مقاصد کیلئے راہ خدا میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ظلم وستم کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ تھے۔ امام امت (ره) نے ایک جانب اس مسئلے کا ادراک کیا اور دوسری جانب راہ خدا میں فداکاری، عدالت کی برقراری اور ظالموں وجابروں سے رہائی کی ضرورت اور اس بات کا محسوس کیا کہ اس نظرئے کو صرف عدالت کی طلبگاری، ظلم کا مقابلہ کرنے اور اس کے راستے میں فداکاری کرنے جیسے مضبوط عقیدے کے ذریعے ہی عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔ لہذا آپ نے اعتقادی اور معنوی بنیادوں اور ان کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عظیم جذبے کو خصوصاً جوانوں کے اندر زندہ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ آپ فداکاری اور شہادت کے جذبے کو زندہ کرنے کی خاطر معنوی اور اخلاقی عقائد کی بنیادوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میں یہ باور نہیں کرسکتا کہ معنوی بنیادوں سے تہی داماں کوئی شخص لوگوں کیلئے کام کرسکتا ہو۔۔۔ جبکہ یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ جو لوگ معنوی بنیادوں کے حامل ہیں جو خدا کے قائل ہیں ، جو جزا کے معتقد ہیں ، جو عطائے پروردگار کے قائل ہیں ان میں سے کوئی اپنی جان فدا کردے اور اس سے بہتر جان حاصل کرلیں ۔ اپنا سب کچھ راہ خدا میں لٹا دے اور اﷲ تعالیٰ سے اس سے کہیں زیادہ اس قدر زیادہ پالے کہ جس کو نہ کوئی آنکھ دیکھ سکنے کا یارا رکھتی ہو اور نہ ہی کوئی کان سن سکنے کی سکت۔۔۔‘‘۔( صحیفہ امام، ج ۴، ص ۲۵۲ و۲۵۳)
بنابریں ، حضرت امام (ره) ایمان اور حق وحقیقت والوں اور توحید پرستوں کو پکارتے ہیں ، کیونکہ ایسے عقیدے کے حامل افراد ہی اس قسم کے جذبے سے سرشار ہوسکتے ہیں ۔ خدا کا عقیدہ رکھنے والا فرد بڑی آسانی کے ساتھ حق کی راہ میں فداکاری اور قربانی پر آمادہ ہوسکتا ہے، جبکہ اس عقیدے سے تہی داماں شخص اپنے اندر اس جذبے کو پیدا نہیں کرسکتا ہے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے علاوہ نفس کی پاکیزگی اور باطن کی اصلاح وصیقل بھی خدا تعالیٰ اور عظیم انسانی اقدار کی خاطر فداکاری اور قربانی کیلئے تیار ہونے کی شرائط میں سے ہیں ، کیونکہ جب تک نفس کو طاہر اور باطن صیقل نہ کرلیا جائے تب تک انسان فداکاری اور قربانی پر آمادہ نہیں ہوسکتا ہے۔ جہاد اکبر، جہاد اصغر کا پیش خیمہ ہے اور اس کا راستہ ہموار کرنے کیلئے از حد ضروری ہے۔ امام امت اپنے ارشادات میں اس حوالے سے فرماتے ہیں :
’’اگر تم نے اپنے نفس کو پاک کرلیا ہے تو پھر کسی چیز سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ مرنا بہت آسان ہے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اسی لئے ہم سب کے مولیٰ امیر المؤمنین (ع) فرمایا کرتے تھے کہ: بچے کو جتنی محبت اپنی مان کے پستان سے ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ مجھے موت سے محبت ہے۔۔۔‘‘۔( صحیفہ امام، ج ۵، ص ۱۴۲)
امت اسلامیہ کی بیداری، حق وشہادت کی راہ میں جہاد وفداکاری اور ظلم وجبر کے مقابلے کیلئے جانثاری کے جذبے کو زندہ کرنے کی حضرت امام (ره) کی کوشش تمام ملت خصوصاً جوانوں کے اندر رضاکارانہ جذبے اور ایسے کلچر کا موجب بنی جس کو رضاکارانہ کلچر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو کہ فداکار اور فداکاری سے عبارت ہے۔ حضرت امام (ره) خود اس عظیم تبدیلی اور بیداری کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’اب بھی میرے پاس ایسے ایسے جوان آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ دعا کیجئے کہ ہمیں شہادت نصیب ہو۔ ہم شہادت چاہتے ہیں ۔ یہ ایک عظیم تبدیلی ہے جو اس ملت میں آئی ہے۔۔۔‘‘۔( صحیفہ امام، ج ۷، ص ۱۴۳ و ۱۴۴)