حج، امت اسلامیہ کا شکوہ
حج مسلمانوں کے اتحاد و وحدت کا مظہر ہے۔ یہ جو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں کو، جو بھی اس کی استطاعت رکھتا ہے ایک مخصوص وقت میں ایک خاص نقطے پر جمع ہونے کی دعوت دی ہے اور ان اعمال و مناسک کے تناظر میں جو نظم و ترتیب، ہم آہنگی و تال میل، اور پر امن بقائے باہمی کا آئینہ ہیں مسلمانوں کو شب و روز ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا کر دیا ہے، اس کا سب سے پہلا اور نمایاں اثر ہر فرد میں اتحاد اور اجتماعیت کا احساس پیدا ہونا اور مسلمانوں کے اجتماع کی شان و شوکت کے مناظر کا سامنے آنا اور احساس عظمت سے ان کے ہر فرد کے ذہن و دل کا سرشار ہو جانا ہے۔
حج امت اسلامیہ کے اتحاد و یگانگت، درمیان سے پردوں اور حجابوں کے ہٹ جانے اور دشمن کی ایجاد کردہ یا تعصب اور توہمات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خلیج کے پٹ جانے کا مظہر اور متحدہ مسلم امہ کی تشکیل کی سمت میں اٹھایا جانے والا ایک قدم ہے۔ دوسری جانب یہ دشمنان خدا سے برائت و بیزاری اور مشرکین اور شرک و کفر کے مہروں سے دوری کا آئينہ ہے۔ امام خمینی (ره) فرماتے ہیں:
ہم سب کو یہ جاننا چاہیے کہ دنیا بھر سے اس مقدس مقام اور مرکز وحی پر جمع ہونے کا ایک عظیم اجتماعی فلسفہ مسلمانان عالم کی باہمی پیوستگی اور عالمی طاغوتوں کے خلاف رسول اسلام ؐ اور قرآن کریم کے پیروکاروں کے اتحاد کا استحکام ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۳۴۰)
ہفتہ اتحاد
اسلامی جمہوریہ نے عالم اسلام کو دعوت دی ہے کہ آئیے بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک اتحاد کا تجربہ کریں۔ ایک روایت کے مطابق جسے اہل سنت کی اکثریت مانتی ہے اور بعض شیعہ بھی اسے قبول کرتے ہیں بارہ ربیع الاول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یوم ولادت با سعادت ہے۔ دوسری روایت سترہ ربیع الاول کی ہے جسے شیعوں کی اکثریت اور سنیوں میں بعض لوگ مانتے ہیں۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرئت نہیں کر سکے گی۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے اہل سنت حضرات آکر شیعہ ہو جائیں، یا دنیا کے شیعہ اپنے عقیدے سے دست بردار ہو جائیں۔ البتہ کوئی سنی یا کوئی دوسرا شخص تحقیق اور مطالعہ کرے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ جو کوئی بھی عقیدہ اپنائے وہ اپنے عقیدے اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔ یہ اس کے اپنے اور اللہ تعالی کے بیچ کا معاملہ ہے۔ ہفتہ اتحاد میں اور اتحاد کے پیغام کے طور پر ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر اتحاد قائم کرنا چاہئے، ایک دوسرے سے دشمنی نہیں برتنا چاہئے۔ اس کے لئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔
یوم قدس
یوم قدس عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی کے حقیقی جلوؤں میں سے ایک ہے۔ امت اسلامیہ کی یکجہتی کا دن پرچم نجات قدس کے زیر سایہ منایا جائے۔ عالم اسلام کے مشرقی نقطے یعنی انڈونیشیا سے لیکر عالم اسلام کے مغربی نقطے یعنی افریقا اور نائیجیریا تک جہاں کہیں بھی عوام کو اپنی خواہش و ارادے کو ظاہر کرنے کا موقع ملے وہ اس دن ضرور ظاہر کریں۔ اس وقت عالم اسلام مسئلہ فلسطین کے تعلق سے بے حد حساس اور پر جوش نظر آ رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عالم اسلام میں بیداری آ چکی ہے۔ لہذا ہمیں اس دن کا احترام کرنا چاہئے، مظلوم ملت فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی اپنی آواز کو دنیا والوں کے کانوں تک پہنچانا چاہئے، ماہ رمضان المبارک کے فیوضات سے الہام حاصل کرتے ہوئے اپنے دلوں کو مستحکم و پائیدار بنانا چاہئے اور وعدہ الہی پر اپنے ایمان و ایقان کو قوی تر کرنا چاہئے۔ امام خمینی (ره) فرماتے ہیں:
وہ ممالک جن کے پاس سب کچھ ہے اور ہر طرح کی قدرت سے سرشار ہیں ان پر چند اسرائیلی کیوں حکمرانی کریں ؟ ایسا آخر کیوں ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ قومیں ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں ۔ عوام اور حکومتوں میں جدائی ہے اور حکومتیں آپس میں متحد نہیں ہیں ۔ ایک ارب مسلمان باوجودیکہ ہر طرح کے وسائل سے لیس ہیں لیکن پھر بھی اسرائیل، لبنان اور فلسطین پر ظلم کررہا ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۱۰، ص ۴۱۷)
اسلامی عیدیں
اسلامی عید مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کا احساس جگانے کے لئے ہے۔ اسلامی عید یعنی وہ دن جب پورے عالم اسلام میں لوگ جشن منائیں۔ اسلامی عید کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو اللہ تعالی اور روحانیت و معنویت کی جانب توجہ اور ارتکاز کا ہے اور دوسرا پہلو تمام مسلمانوں کا محور واحد کے گرد جمع ہو جانا ہے۔ تمام اسلامی عیدوں اور تقاریب میں ہمارے لئے ان خصوصیات پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ ہم مسلمانوں کے دل ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ آج مسلمانوں کو ہر دور سے بڑھ کر اس کی ضرورت ہے کہ ان کے دل ایک دوسرے کے نزدیک ہوں۔