سنہ ۱۳۶۵ ھ ش (۱۹۸۶ ئ) کو میں امام ؒکی طرف سے نمایندہ اور ایرانی حجاج کا سرپرست ہونے کے عنوان سے سفر حج کیلئے عازم تھا۔ ائیرپورٹ پر حج کے حوالے سے کچھ سیاسی پالیسی کے بارے میں مجھ سے انٹرویو لیا گیا۔ اس وقت کہا تھا کہ اس دفعہ ہم مشرکین سے برائت کے پروگرام میں مسلمانوں کے اتحاد میں نعرے لگائیں گے۔ اسی طرح امریکہ وغاصب صیہونیزم کے خلاف احتجاج اور لبنان کی مشکلات کے بارے میں بھی آواز اٹھائیں گے۔ اس انٹرویو میں روس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، بلکہ میں نے کہا کہ امریکہ واسرائیل اور کفر والحادی طاقتوں کے خلاف احتجاج کریں گے۔ جب ہم مکہ گئے تو آقائے احمد نے فون کیا کہ امام فرماتے ہیں : ’’اس سر زمین میں نہ شرقی اور نہ غربی کی سیاست وپالیسی کی رعایت کریں ۔ جس طرح امریکہ اور اس کی سیاست پر تنقید کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ روس کے خلاف بھی پر زور احتجاج کریں ۔ ان دونوں استکباری طاقتوں کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھیں ‘‘۔ میں اس وقت متوجہ نہ ہوسکا کہ مسئلہ کیا ہے۔ لیکن عرض کی کہ ضرور یہ احتجاج بھی کریں گے۔ جب حج کے مراسم ختم ہوئے اور ایران واپس پہنچے تو حاج آقائے احمد نے مجھ سے کہا: فلاں ! جانتے ہو کہ جس مسئلہ کی وجہ سے میں نے آپ کو فون کیا تھا وہ کیا تھا؟ میں نے کہا: نہیں ! کہا: ہم بھی متوجہ نہیں تھے۔ امام ؒنے فرمایا: ’’میں نے ان کے ائیرپورٹ کے انٹرویو کو سنا کہ انہوں نے امریکہ واسرائیل کا تو صراحت سے نام لیا۔ لیکن روس کا ذکر نہیں کیا‘‘۔ اس کے بعد فرمایا: ’’ایسا نہ ہو کہ وہ مکہ میں بھی روس کے خلاف احتجاج کرنے میں تامل سے کام لیں ۔ نہیں ! بلکہ لازم ہے کہ روس کا نام بھی صراحت سے لیا جائے اور افغانستان پر اس کے ناجایز قبضے کے خلاف واضح احتجاج کیا جائے‘‘۔