امام علی علیہ السلام کی شخصیت امام خمینی رحمہ اللہ کی نگاہ میں

امام علی علیہ السلام کی شخصیت امام خمینی رحمہ اللہ کی نگاہ میں

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی شخصیت اتنی عظیم ہے کہ جن کی عظمت اور خصوصیات، اور شان و منزلت کے بارے میں تمام مسلمان فرقوں کے درمیان اتفاق نظر پائی جاتی ہے دنیا کے تمام مسلمان حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ عظیم ہستی، یہ بے مثال شخصیت، یہ اسلام کا کامل مظہر، ایک لمحے کے لئے بھی پیغمبر اسلام کی پیروی سے غافل نہیں ہوا، حضرت علی (ع) نے بچپن سے لے کر زندگی کے آخری لمحہ تک خداوندمتعال، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لئے مجاہدت کے سلسلے میں ایک لمحہ کے لئے بھی کوئي کوتاہی نہیں کی۔

امام علی علیہ السلام کی شخصیت امام خمینی رحمہ اللہ کی نگاہ میں

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی  شخصیت اتنی عظیم ہے کہ جن کی عظمت اور خصوصیات، اور شان و منزلت کے بارے میں تمام مسلمان فرقوں کے درمیان اتفاق نظر پائی جاتی ہے دنیا کے تمام مسلمان حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ عظیم ہستی، یہ بے مثال شخصیت، یہ اسلام کا کامل مظہر، ایک لمحے کے لئے بھی پیغمبر اسلام کی پیروی سے غافل نہیں ہوا، حضرت علی (ع) نے بچپن سے لے کر زندگی کے آخری لمحہ تک خداوندمتعال، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لئے مجاہدت کے سلسلے میں ایک لمحہ کے لئے بھی کوئي کوتاہی نہیں کی۔

امام خمینی رحمہ اللہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں: امت مسلمہ کے امام  کی شخصیت ایسی ہے کہ اسلام میں، اسلام سے پہلے اور اس کے بعد کسی کو بھی ان کی مانند تلاش کرنا ناممکن ہے۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جن کے اندر متضاد صفات پائی جاتی ہیں۔ جو شخص جنگجو ہوتا ہے وہ اہل عبادت نہیں ہوتا، جو طاقت کے بل بوتے پر زندگی بسر کرتا ہے وہ زاہد و پرہیزگار نہیں ہو سکتا، جو ہمیشہ تلوار چلاتا ہو اور منحرف افراد کو سیدھے راستے پر لگاتا ہو وہ لوگوں پر مہربان نہیں ہو سکتا لیکن حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس ذات کا نام ہے جس میں متضاد صفات پائی جاتی تھیں۔ وہ دنوں کو روزے رکھتے تھے اور راتوں کو عبادت میں مصروف رہتے تھے اور تاریخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ایک رات میں ہزار رکعت نماز بھی پڑھا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کا کھانا جو کی روٹی اور نمک ہوتا تھا اور اسی جو کی روٹی اور نمک کے باوجود ان کی جسمانی طاقت اتنی تھی کہ انہوں نے باب خیبر کو اکھاڑ کر دور پھینک دیا جس کے بارے میں تاریخ نے لکھا ہے کہ چالیس افراد مل کر بھی اسے ہلا نہیں سکتے تھے۔ ان کا تلوار چلانے کا انداز یہ تھا کہ جس  کے اوپر وہ تلوار چلی اس کے دو ٹکڑے کر دیتی تھی جبکہ جن پر تلوار چلتی تھی وہ زرہ پوش ہوتے تھے اور بعض اوقات تو دو زرہیں پہنتے تھے لہذا حضرت علی علیہ السلام ایسی ذات ہیں جو  مختلف متضاد صفات کے حامل تھے۔

 امام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت مکمل معجزہ تھی ان کی مانند کسی دوسرے کا ہونا ناممکن ہے۔  میرے خیال کے مطابق اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس واحد ہستی کے علاوہ کسی دوسرے کی تربیت نہ کی ہوتی تو ان کے لئے وہی کافی ہوتا جیسا کہ پیغمبر اسلام کو مبعوث کیا گیا تھا اور اگر وہ ان کے علاوہ معاشرے میں کسی اور کی تربیت نہ بھی کرتے تو یہی کافی ہوتا لہذا ان کی مانند کوئی نہیں ہو سکتا اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کسی طریقے سے بھی کوئی ان سے افضل نہیں تھا اور نہیں ہو سکتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ چاہتے تھے کہ سبھی انسانوں کو حضرت علی علیہ السلام کی طرح بنائیں اگر بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نتیجہ حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہ ہوتا تو یہ بھی بہت بڑی توفیق تھی۔ اگر خداوندمتعال نے انہیں ایسے عظیم الشان اور کامل انسانوں کی تربیت کے لئے مبعوث کیا ہوتا تو یہی مناسب تھا، ائمہ علیہم السلام بھی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت پا کر دوسرے انسانوں کو بھی اپنے طرح بنانا چاہتے تھے لیکن ایسا ہو نہ پایا۔   

حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں ہر کسی نے کچھ لکھا اور کہا ہے اہل عرفان نے ان کے بارے میں عرفانی نگاہ سے لکھا ہے، اہل فلاسفہ نے ان کے بارے میں فلسفی نگاہ سے لکھا ہے، علماء و اہل فضیلت نے بھی اپنی توان کے مطابق ان کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے جب کہ حقیقت اور معرفت علی علیہ السلام کچھ اور چیز ہے لہذا مناسب یہ ہے کہ اس وادی سے گزر جائیں اور یہ کہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صرف خدا کے بندے ہیں اور یہ چیز ان کے لئے سب سے بڑی خصوصیت اور انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ السلام سے تربیت حاصل کی تھیں اور یہی چیز ان کے لئے بہت بڑے فخر کی بات ہے، کون شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ میں خدا کا بندہ ہوں اور دیگر تمام چیزوں سے دوری اختیار کر چکا ہوں انبیائے الہی اور اولیائے الہی کے علاوہ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا اور اولیائے الہی میں علی علیہ السلام کا نام سرِفہرست ہے حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تربیت اور حقیقی معنوں میں ان کی پیروی کا دعوی کوئی نہیں کر سکتا۔ 

امام خمینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود و سلام ہو جنہوں نے ایک ایسے الہی موجود کی تربیت کی اور اسے انسانیت کے لائق کمال تک پہنچایا اور سلام و دردو ہو ہمارے مولا حضرت علی علیہ السلام پر جو انسان کامل کا نمونہ اور قرآن ناطق ہیں اور ابد تک ان کا عظیم الشان نام باقی رہے گا اور وہ خود اسم اعظم کے مظہر ہیں۔

بانی انقلاب حضرت امام خمینی رحمہ اللہ حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ ایسا دن ہے جس میں علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت واقع ہوئی ہے جو باب وحی اور امانتدار وحی ہیں یہ ایسا دن ہے جس میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قرآن کریم اور اپنی سنت کا مفسّر ملا ہے اور دین اسلام کو اس دن حامی و مددگار ملا ہے، اس عظیم مولود کے وجود سے بعثت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پایہ تکمیل تک پہنچی ہے اور یہ کہنا درست ہو گا کہ باب وحی، تفسیر وحی اور وحی کا دوام اسی مقدس وجود کے طفیل سے ہے۔ امام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس بابرکت دن کی مناسبت سے تمام اقوام کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں یہ ایسا دن ہے جو روزبعثت بھی ہے، روز ولایت بھی ہے، روز نبوت بھی ہے اور روز امامت بھی ہے۔

امام خمینی رحمہ اللہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی معرفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بنیادی طور پر اسلام کے سپاہی اگرچہ نامور و مشہور ہیں لیکن حقیقت میں وہ گمنام ہیں، اسلام کی راہ میں فداکاری کرنے والے سب سے مشہور اور نامور سپاہی امیرالمومنین علیہ السلام ہیں اور وہ سب سے گمنام سپاہی ہیں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان عرفانی، فلسفی، سیاسی طریقے یا کون سے قلم، بیان، زبان اور کون سی فکر سے اس گمنام سپاہی کو متعارف کرائے، پہچانے اور اور پہچنوائے؟

امام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آج کے دن جس مولود نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے اس کی تعریف و توصیف نہیں کی جا سکتی جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اس کی شان کے مطابق نہیں ہے اور جو کچھ عرفاء، شعراء، فلاسفہ اور دوسرے افراد اس کے بارے میں کہتے اور لکھتے ہیں وہ اس کے حقیقت وجود کا صرف ایک پہلو ہے، ہم اکثر و بیشتر جو چیزیں اور جو مطالب مولائے کائنات کے سلسلے میں سمجھتے اور ادراک کرتے ہیں وہی لکھتے اور بیان کرتے ہیں اور جو کچھ ہمارے ادراک اور ہماری سمجھ سے بالا ہے اسے ہم ہرگز بیان نہیں کر سکتے انسان جب تک کسی کی حقیقت کے بارے میں علم نہ رکھتا ہوں اسے ہرگز بیان نہیں کر سکتا لہذا ہمیں بھی ان کی بابرکت بارگاہ میں معذرت خواہی کرنی چاہئے کہ ہم آپ کے کمالات بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن جو چیز افسوس کا باعث بنی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو اپنی جلوہ نمائی کا موقع نہیں دیا گیا۔    

ای میل کریں