امام خمینی رحمہ اللہ کی وطن واپسی پر عوام میں جوش و خروش
انقلاب اسلامی ایران کی تاریخ میں امام خمینی رحمہ اللہ کی اپنے وطن واپسی ایک اہم واقعہ ہے امام خمینی رحمہ اللہ ۱۴ سال جلاوطنی کے بعد ۳فروری ۱۹۷۹ کو ایران واپس آئے اور تہران میں تقریباً تیس لاکھ ایرانیوں نے ان کا استقبال کیا اس دن کو ایران کی سرکاری تقویم میں دھہ فجر کے آغاز کے دن سے یاد کیا گیا ہے۔ شاہ کے فرار کے بعد ۲۶ دی ماہ ۱۳۵۷ھ،ش کو امام خمینی رحمہ اللہ نے عالمی خبر رساں اداروں کو ایک مختصر پیغام میں اعلان کیا: میں اس عظیم کامیابی پر عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ جلد از جلد ایران واپس آئیں گے۔ جب امام خمینی رحمہ اللہ کے چاہنے والے اور مذہبی سپاہی تمام تر مشکلات کے باوجود امام رحمہ اللہ کے شاندار استقبال کی تقریب کی تیاری کر رہے تھے امام رحمہ اللہ کے فیصلے کے اعلان کے بعد پہلوی حکومت کے آلہ کار کافی تشویش میں پڑ گئے، وہ لوگ پہلوی حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں سے گھبرائے ہوئے تھے اور انہوں نے امام رحمہ اللہ کی آمد کا سنتے ہی اپنے امیدوں پر پانی پھرتے دیکھا اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب پہلوی سلطنت کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ لہذا انہوں نے ملک میں امام رحمہ اللہ کی آمد کی مخالفت کرنے یا امام رحمہ اللہ کے فیصلے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ بختیار کی حکومت تو کافی منصوبے بنا رہی تھی کہ یا تو امام خمینی رحمہ اللہ کے جہاز کو اڑا دیا جائے یا اسے کسی اور ہوائی اڈے پر اتار کر انہیں گرفتار کر لیا جائے لیکن وہ سبھی منصوبوں میں ناکام ہوگئی، آخر کار اس نے ہوائی اڈوں ککی بندش کا فیصلہ کیا۔ جبکہ امام خمینی رحمہ اللہ ۶ بہمن کو فرانس سے ایران تشریف لانے والے تھے اور اسی اثناء میں ملک کے ہوابازی اتھارٹی نے اعلان کیا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے تمام پروازیں منسوخ کر دی گئیں ہیں۔ ہوائی اڈوں کی بندش اور بختیار حکومت کے ملک میں داخلے سے روکنے کی خبر کے بعد لوگوں نے مظاہروں کے ذریعہ حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا۔ تینوں افواج کے تمام افسران تہران، اصفہان، کرمانشاہ، دزفول، ہمدان اور بوشہر میں اپنے اڈوں پر ہڑتال پر آئے اور پھر مظاہرین کی صفوں میں شامل ہوگئے تہران میں مظاہرین کے سیلاب نے مہرآباد ایئرپورٹ کی جانب مارچ کیا۔ ملک بھر میں حکومت کے خلاف لڑنے والے علماء جو امام رحمہ اللہ کے استقبال کے لئے ایران آئے تھے انہوں نے تہران میں یونیورسٹی کی مسجد میں احتجاج میں اعلان کیا کہ جب تک امام خمینی رحمہ اللہ وطن واپس نہیں آتے تب تک احتجاج جاری رکھیں گے۔ عوام اور طلاب بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل ہو گئے دوسرے دن تقریباً دس لاکھ پر مشتمل مجمع نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے موقع پر حکومت کے خلاف اور امام رحمہ اللہ کی حمایت میں نعرے بازی کی۔ مختلف علاقوں میں حکومت کی جانب سے مسلسل گولیاں چل رہی تھیں اور اس میں متعدد افراد شہید ہوگئے، تہران کے مغرب اور جنوب میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ ہوائی اڈوں کی بندش کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے بعد بختیار حکومت پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی اور اسے شکست تسلیم کرنا پڑی۔ بختیار نے ۹ بہمن کو یہ اعلان کیا کہ آج مہرآباد ایئرپورٹ کھول دیا جائے گا اور امام خمینی رحمہ اللہ کی وطن واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ ۱۰بہمن کو حکومتی کابینہ نے یہ اعلان کیا کہ تہران مہرآباد ایئرپورٹ پر امام خمینی رحمہ اللہ کے لانے والے جہاز کے سلسلہ میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ایجاد نہیں کی جائے گی۔
اس خبر کے اعلان کے بعد امام رحمہ اللہ کے استقبال کرنے والی کمیٹی نے ایک پیغام میں اعلان کیا کہ امام خمینی رحمہ اللہ ۱۲ بہمن مطابق ۳ فروری بروز جمعرات صبح ۹ بجے تہران میں داخل ہوں گے۔ ۱۱بہمن کی شام کو امام خمینی رحمہ اللہ کا طیارہ فرانس کے چارلس ڈی گول ایئرپورٹ سے اڑا ۔ امام رحمہ اللہ نے طیارہ میں نماز شب ادا کرنے کے بعد آرام فرمایا، طیارہ کی انتظامیہ امام خمینی رحمہ اللہ کو پرسکون حالت میں دیکھ کر تعجب میں پڑ گئی، طلوع فجر کے وقت امام خمینی رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں نے نماز باجماعت صبح ادا کی جب طیارہ ایرانی فضا میں داخل ہوا تو ایک رپورٹر نے امام خمینی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں تو امام رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: کچھ نہیں۔ امام رحمہ اللہ کی جانب سے پرسکون جواب دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف اپنی شرعی ذمی داری کے مطابق عمل کر رہے تھے۔ شکست اور کامیابی دونوں ان کی نظر میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں جس طرح شکست سے دو ناامید نہیں ہوتے تھے اسی طرح وہ کامیابی سے بھی زیادہ خوشی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ماہ بہمن کی ۱۲ویں تاریخ کا سب سے پرجوش استقبال ظاہر ہوا یہ دن ایران کی عصری تاریخ کا ایک نہایت مستقل اور اہم دن تھا اور اس دن لوگوں کا جوش ناقابل بیان تھا۔ بہت سے لوگ امام رحمہ اللہ کی استقبالیہ تقریب میں شرکت کے لئے تہران آئے تھے۔ صبح تقریباً چھ بجے سڑکوں پر ہجوم تھا صبح سویرے لاکھوں افراد امام خمینی رحمہ اللہ کے راستے پر سڑکوں کے دونوں اطراف پر کھڑے ہوگئے اور لوگوں کو منظم کرنے کے لئے تقریباً پچاس ہزار پولیس انتظامیہ سڑکوں پر نظر آ رہی تھی۔ ساڑھے نو بجے صبح امام رحمہ اللہ طیارہ سے نیچے اترے اور لوگوں نے دیکھتے ہیں اللہ اکبر کی فریادیں بلند شروع کر دیں امام خمینی رحمہ اللہ نے لوگوں کا پیغام سننے کے بعد خطاب فرمایا: انہوں نے سب سے پہلے قوم کے تمام طبقوں، نوجوان اور بوڑھے، علماء اور تاجروں، ججوں اور وکلاء، ملازمین اور کارکنوں اور کسانوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مشکلات برداشت کی اور کامیابی کے راستے پر ثابت قدم رہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں محمد رضا کی ایران واپس آنے اور بادشاہت کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو ایک ناکامی قرار دیا۔ اس کے بعد امام رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کامیابی صرف اتحاد میں ہے اور اس اتحاد کو برقرار رکھنا ہمارا فریضہ ہے۔