ایک صاحب نظر انسان کیلئے ممکن ہے یہ وہ تین صورتوں میں دوسرے مکا تب و نظریات پر تبصرہ واعتراض کرے: ا ند رونی امور پر تبصرہ، بیرونی امور پر تبصرہ اور زیر ساختاری امور پر تبصرہ۔
اندرونی امور پر تبصرہ: اس میں کسی مکتب یا نظرئیے کے مسائل اور جزئیات پر تبصرہ کیاجاتاہے جیساکہ امام غزالی نے ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ میں مشائی فلسفہ کو جزئی طور پر انہیں ایک ایک مسئلہ کی صورت میں بیا ن کرکے ان پر تبصرہ کیاہے اور اسی طرح فخررازی نے بوعلی سیناکی کتاب ’’اشارات‘‘ کے ایک ایک جزء پر تبصرہ کیاہے۔
بیرونی امور پر تبصرہ: اس میں کسی مکتب یا نظریئے پر کلی اور عام طور سے تبصرہ کیاجاتاہے کہ کس قدر کار آمد ہے، خارجی لحاظ سے کتنا موثر ہے یا اس کی روش یا وجودی بناوٹ کے لحاظ سے تبصرہ کیا جاتا ہے جیساکہ ابن خلد ون نے اپنے مقدمے میں اسی روش کو اختیار کیاہے چنا نچہ انہوں نے مورخین اور ناقلین اخبار کے طریقے اور نتیجے پر تبصرہ کیا ہے یاپھر ابن سینا کی طرح جیساکہ ا نہوں نے نمط نہم ودہم میں علم عرفان اور عرفانی دعوؤں پر کلی طور سے تبصرہ کیاہے۔
البتہ کبھی دا نشور حضرات مذکورہ د ونوں طریقوں کی بجائے بنیادی تبصرہ کی راہ کو ا نتخاب کرتے ہیں یعنی اندرونی یابیرونی امور پر تبصرہ کرنے کی بجائے کچھ خاص اصول کو بنیاد قرار دیتے ہوئے اپنے نظریات کو بیا ن کرتے ہیں جو دوسرے مکاتب ونظریات سے بنیادی طور پر مختلف ہوتے ہیں جیسا کہ فصوص الحکم میں محی الدین نے، احیاء العلوم میں غزالی نے اپنا شیوہ وطریقہ بیا ن کیاہے اس میں صاحب نظر براہ راست کسی مکتب ونظریہ پر تبصرہ نہیں کرتا لیکن بلا واسطہ طریقے سے ایک مکتب یا نظریات کی ساری بنیاد وں کوہلاکررکھ دیتاہے بلکہ کبھی کبھی منہدم کردیتاہے چنا نچہ محی الدین کا عرفان ایسا ہے جو صرف یہی نہیں بتاتا کہ حکمت وکلام کے جو سارے طریقے رائج ہیں وہ ناقص ہیں بلکہ وہ گزشتہ لوگوں کے زاہدانہ و عاشقا نہ عرفان پر بھی اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ احیاء العلوم میں امام غزالی بھی متکلمین وفلاسفہ اور فقہاء کے مبا نی پر زبردست حملہ آور ہوتے ہیں جبکہ وہ براہ راست اندرونی یا بیرونی امور پر تبصرہ نہیں کرتے۔
واضح ہے کہ امام خمینی(ره) نے براہ راست (اندرونی یا بیرونی طورپر) دوسرے اخلاقی مکاتب پر تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن آپ کے اخلاقی مکتب کی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ا نتقاد وتبصرہ میں کوئی شک نہیں ہے۔ آپ کے اخلاقی مکتب کی بنیاد پر ارسطو کا اخلاق یہاں تک کہ افلاطون کا اخلاق، عقلانیت محض اور خالص توحید پسندی سے علیحدگی کی وجہ سے ناقص شمار کیاجاتاہے جیساکہ قرون وسطیٰ میں کیتھولکی اخلاق، رسمی قرائت پر تاکید اور ارسطو کے طریقے کو اصل بتا نے کی وجہ سے ناقص شمار کیاجاتاہے۔
رنسانس اور پروٹسٹانس کے اخلاق کو بھی اس لئے ناقص شمارکیاجاتا ہے کہ ا نہوں نے عرفی کیاہے اور اخلاق میں افراط سے کا م لیاہے، اہل نظر اور دین شناس افراد کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی اور خواہ مخواہ عقلانیت پر زور دیاہے۔
کا نٹ کا اخلاق بھی اس وجہ سے ناقص ہے کہ اس کے اخلاق کی بنیاد توحید پر استوار نہیں ہے اور وہ عقل نظری سے کا م لیتاہے۔ اخلاق فرزا نگی بھی جس فلسفۂ پراگماتیستی کورجحا ن دیتاہے یہ بھی عقل وتجربے کو ترجیح دیتاہے یہ عرفان اور دین سے الگ ہے جیساکہ اخلاق کا رل مارکس غیرعلمی اور غیرمنطقی الحادی مبانی کے علاوہ ثباتی پہلو اور بالعموم اخلاقی وقواعد کی نفی کرتاہے۔ راسل کا نفع پرست اخلاق اور جو اخلاق لیبرالی حقیقت کے ساتھ ہے یہ سب بھی مکمل طور سے زمینی حقیقت رکھتے ہیں یہ انسان کے ذاتی ومتعالی خصوصیات کو نظرا نداز کرتے ہیں ۔
امام خمینی (ره) کا اخلاقی مکتب بھی تاریخ کے پس منظر میں زاہدا نہ عرفان یاغیر جامع عاشقا نہ عرفان کے مطابق نہیں ہوسکتا جیساکہ ابن مسکویہ اور خواجہ نصیر کے اخلاق کی حقیقت چونکہ یونا نی حقیقت ہے جو فلسفی وعقلا نی ہے وہ امام خمینی(ره) کے اخلاقی مکتب کے موافق نہیں ہے کیونکہ امام خمینی(ره) کے اخلاقی مکتب کی حقیقت، عرفانی اورجامع ہے۔
البتہ جواخلاق ابن سینا، شیخ اشراق ومحی الدین اور مولوی کے عرفانی تجربے پر استوار ہے امام خمینی(ره) کے نزدیک اس کی بہت اہمیت ہے لیکن چونکہ یہ رجحان بھی اجتماعی وانقلابی لحاظ سے کمزور ہونے کی وجہ سے نبوی اخلاقی مکتب سے بہت فاصلے پر ہے۔
سعدی کا ادبی عرفانی اخلاق، عرفان اور ہنر کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت زیادہ قابل تحسین وآفرین ہے لیکن اخلاق کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہے خصوصاً ایک جامع عرفانی اخلاق کیلئے، اسے گلستا ن اور بوستا ن سے بہت بڑھ کرہونا چاہئے۔
ملاصدرا کا جو جامع اخلاق ہے وہ د وسرے مکا تب کی بہ نسبت بہت بلند ہے لیکن اس کا پس منظر بہت کم اجتماعی وانقلابی ہے۔
ملامہدی نراقی کا فلسفی دینی اخلاق بھی دینی اور عقلانی پس منظر کے لحاظ سے خود ان کے زما نے میں قابل تعریف ہے لیکن چونکہ انہوں نے ارسطو کو نمونہ بنایاہے، نبوی وعلوی توحید کی طرف توجہ نہیں دی ہے لہٰذا خالص دینی اخلاق کی حقیقت سے فاصلہ اختیار کرلیاہے۔
اخلاق، التقاطی نقطہ نظر سے اس کی داہنی یابائیں حقیقت کے ساتھ بنیادی طور پر توحیدی متعالی اخلاق سے فاصلہ رکھتاہے کیونکہ التقاطی اخلاق کی اصل بنیاد، الحادی بائیں فکرہے یا اومانیستی وسیکولار غرب کی فکرہے جوخالص توحید کی کسی طرح بھی موافق نہیں ہے لیکن جیساکہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ فیض کاشانی کا اخلاقی مکتب اور حسین قلی ہمدانی کا وہ اخلاق جس کا محور ثقلین ہے ا ن د ونوں نے سید جمال اور اقبال لاہوری کے اخلاقی مکتب کیلئے ضروری ومناسب مقدمات فراہم کئے پھر آخر میں امام خمینی(ره) کے اخلاقی مکتب میں علمی اور نظری لحاظ سے تجلی کرکے تکامل حاصل کر لیتے ہیں ۔البتہ امام خمینی(ره) کے اخلاقی مکتب کی حقیقت کو ا ن کے عرفانی مکتب کی حقیقت سے الگ نہیں سمجھا جاسکتا یعنی بالکل عمیق طور سے امام خمینی(ره) کے اخلاقی مکتب کی بنیاد، عرفانی ہے اور ا ن کا عرفانی مکتب بھی دوسرے رائج اور رسمی مکاتب سے بالکل ممتاز ہے۔