جماران کی رپورٹ کے مطابق، آیت الله سید حسن خمینی نے حسینیہ جماران میں فاطمہ زہراء[س] کے یوم شہادت کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
اگرچہ کربلا کے عظیم الشان سانحے کا موضوع اور اس کی تاریخ ساز شخصیت امام حسین علیہ السلام کی ذات، فرد واحد ہے لیکن سقیفہ بنی ساعدہ میں موضوع، حضرت علی علیہ السلام کی ذات ہے اور فاطمه زهراء سلام اللہ علیہا سقیفہ کی قہرمان شخصیت کا نام ہیں۔ اسی طرح حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کے موقع پر موضوع، خود ان کی ذات تھی اور اس کا قہرمان، صبر مجسم کی بناپر، حضرت علی علیہ السلام ہیں۔
یادگار امام نے «صبر» کے حصول میں شامل عوامل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا: کبھی کبھار ہم اپنی عاجزی کو صبر سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ صبر، قدرت کے محور پر گردش کرتا ہے اور اس کے برعکس کمزوری اور عاجزی، خوف اور لالچ کے ارد گرد گومتی ہے۔
انہوں نے «بڑے مقصد کے حصول کےلئے اعلی مصلحت کی پہچان» کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگر کسی دن ہمارے دوست یا شریک کار نے ہم سے چلا کے بات کی تو ہم، برہم ہو کر اس کے خلاف انتقامی کارروائی کےلئے اقدام نہ کریں، گرچہ تحمل سے کام لینے کی صورت میں یہ بھی امکان پایا جاتا ہے کہ ہم خود مورد الزام ٹھریں تاہم ایسے الزامات کو سننے کےلئے بھی صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے جس کی مثال امام حسن علیہ السلام کی معاویہ سے صلح کے موقع پر ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے، جب آپ نے معاویہ سے صلح کیا تو آپ کے قریبی ساتھیوں نے آپ کو «[استغفراللہ] مضلّ المومنین» کے لقب سے یاد کیا اور امام حسن علیہ السلام نے ان کی اس نازیبا حرکت پر صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ آپ کی نظر میں وہ اہم مصلحت مدنظر تھی جس کا ثمرہ مستقبل میں ظاہر ہونے والا تھا جبکہ امام کے اصحاب، وقتی مصلحتوں کی کسوٹی پر حالات کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
یادگار امام نے «اراده» کو صبر کے ایجاد میں ایک اور موثر عامل کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا: اگر انسان کمزور ذہنیت کا مالک نہ ہو تو وہ اپنے اندر برداشت کی قوت پیدا کر سکتا ہے۔
انہوں «علم» کو بھی صبر کے موثر عوامل میں شمار کرتے ہوئے کہا: علم کا مطلب حالات اور وقت کے تقاضوں پر تسلط پیدا کرنا ہے اگر کوئی شخص حالات کے تقاضوں سے آشنا نہ ہو تو گیند کی طرح جتنی تیزی کے ساتھ بلندی کی جانب پرواز کرتا ہے اسی تیزی کے ساتھ تنزل کا شکار بھی ہوتا ہے۔
انہوں نے ایسے علم کو اجتماعی عقل کا لازمہ قرار دیتے ہوئے کہا: ایک فرد یا چھوٹاسا گروہ کبھی بھی بڑے مقصد کی تشخیص میں کامیاب نہیں ہوسکتا اس لئے اعلا مصلحت کی شناخت کےلئے صبر کا وجود ضروری ہے اور اس راہ میں تمام افراد کو سمجھداری سے کام لیتے ہوئے معاشرے کی بھلائی اور سعادت کےلئے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے امید اور خیالی تصورات میں فرق بیان کرتے ہوئے کہا: خیالی تصورات کا مطلب غیر عقلی امور سے وابستگی ہے جبکہ امید ایک عقلانی شئی کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ پر توکل کرنے والے لوگ پر امید ہونے کے ساتھ قدرتمند بھی ہوتے ہیں۔
انہوں نے خدا پر بھروسہ اور اعتماد کرنے کو ایک اچھی اور میٹھی زندگی کےلئے بنیادی شرط قرار دیتے ہوئے کہا: صابر انسان کو توکل کے عروج پر دکھائی دینا چاہئے۔
سید حسن خمینی نے قدرت کے ایجاد میں "رائے عامہ پر اعتماد" کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: رائے عامہ پر اعتماد، امید اور قدرت کا باعث بنتا ہے ہمیں اس بات پر یقین کرنا ضروری ہے کہ ہم تمام لوگوں کو دھوکہ نہیں دے سکتے، گرچہ وقتی طور پر دھوکہ دہی کا امکان پایا جاتا ہے تاہم طویل مدت کےلئے اس کا امکان ہرگز نہیں ہے۔
سید حسن خمینی نے اپنی تقریر میں صبر کے ایجاد میں موثر اسباب کو انقلاب کی کامیابی کے عوامل کے طور پر معرفی کرتے ہوئے کہا: اگر ہم نے کہیں اس بات کا مشاہدہ کیا کہ مذکورہ عوامل سے ہٹ کر کوئی دوسرا عنصر صبر کے ایجاد میں دخیل ہے تو وہ حقیقت میں صبر نہیں بلکہ عاجزی اور ناتوانی کا مصداق ہے کیونکہ صبر اور صابر، امید اور تحرک اور نشاط سے لبریز ہوتا ہے جبکہ خون جگر پینا، عجز اور ناتوانی سے مترادف ہے۔
آخر میں حجت الاسلام نے کہا: صابر انسان وہی ہے جو مصلحت کی تشخیص کے بعد اپنی تمام تر توانائی کو اغیار کے مقابلے میں استقامت کےلئے صرف کرتا ہے اور ضرورت پڑھنے پر اس راہ میں بھاری قیمت بھی ادا کرتا ہے اس لئے وہ انسان حقیقی صبر کا مالک ہے جو ہدف کے اقتضا کی صورت میں ایک لمحہ بھی قیام کرنے میں سستی کا شکار نہ ہو اور صبر کے حصول میں موثر عوامل کے سائے میں انقلاب کے حصول کےلئے بھی اقدام کرےگا۔ یہاں اس نکتے کی جانب بھی توجہ ضروری ہے کہ بسا اوقات صبر خود اپنے آپ میں جوش مارتا ہوا سمندر ہوتا ہے۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ