امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کچه ایسی خصوصیات کے مالک تهے جو دوسرے عرفاء میں کم نظر آتی ہیں۔ البتہ دوسرے عرفاء بهی ایسی خصوصیات کے مالک تهے جن کو امام کے اندر ظہور و بروز کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ ہر ایک عارف کسی نہ کسی اسماء اللہ کا مظہر ہے۔ دوسروں نے جو کام کیا یہ ہے کہ اس حوالے سےمبسوط کتابیں لکهی ہیں امام کو یہ کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن دوسروں کے مکتوبات کو علم سے عین اور گوش سے آغوش میں لائے ہیں )ان کو جامہ عمل پہنایا ہے (جو چیز دوسروں کی انتہائی سعی و کوشش کا نتیجہ تهی۔ امام کی بہت نمایاں خصوسیت یہ تهی کہ موت سے نہیں ڈرتے تهے کیونکہ ارادی موت کا تجربہ کیا تها جب ارادی موت کا تجربہ کیا ہو جب موت کا ڈر نہ ہو تو انسان دست خالی نہیں ہوتا اور بقیہ مسائل اس کے سامنے حل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ۵/جون کے واقعہ کے بعد اپنی جلا وطنی کے حوالے سے فرماتے تهے: یہ ڈر رہے تهے لیکن میں نہیں ڈر رہا تها، انسان جب اپنی خواہشات کا گلا گهونٹ دیتا ہے ہوا و ہوس کے دوش پر سفر نہیں کرتا ہے بلکہ ولایت کے پروں سے پرواز کرتا ہے ، موت سے نہیں ڈرتا ہے اور جب موت سے نہیں ڈرتا اس طرح ہوجاتا ہے۔ انجام وظیفہ کی راہ میں جو چیز دوسروں کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے ۔ یہی موت کا خوف ہے۔ میں آپ کے قیام کے دوران ایک مرجع کے یہاں گیا جو میرے بهی استاد تهے، میں نے دیکها کہ کتاب بحارالانوار سے بحث تقیہ کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ ممکن تها وہ جہاد و جنگ اور فداکاری کی بحث عنوان کریں وہ جہاد کی بات کرتے تهے لیکن ان کے ذہن میں تقیہ کی بحث تهی۔ لیکن امام جہاد کی بات کرتے تهے۔ جہاد کی فکر کرتے تهے اور آپ کے دل میں جہاد کی تڑپ تهی یہ امام کی خصوصیت تهی اور یہ ایک ہنر ہے۔
بیانات حضرت آیۃ اللہ جواد آملی ۲۰۰۴ء