حصہ اول میں ہم نے آیت اللہ شیخ جعفر سبحانی کی تحریر کردہ سطور "امام خمینی(رح) کی شخصیت، آیت اللہ سبحانی کے افکار میں" کے عنوان سے آپ محترم قارئین کی خدمت میں پیش کیا تها کہ آپ نے فرمایا: امام خمینی(رہ) ایک ایسی شخصیت ہے کہ جس نے لطف الہی کے سہارے اور ایمانی کی قوت سے اسلامی معاشرہ میں تازہ روح پهونکی اور خود فراموشی کی گرد کو اس کے چہرے سے پاک کیا اور اس کو اس کے حقیقی شخصیت سے آشنا کیا۔۔۔
اب ملاحظہ فرما لیجئے باقی سطور:
امام خمینی(رح) کے فلسفی اور عرفانی پہلو
قم میں حوزہ علمیہ کی تاسیس ہوئی کہ عظیم فلسفی اور عرفانی شخصیات حرم اہلبیت(ع) سے فیضیاب ہونے اور اس سے دوسروں کو بہرہ مند کرنے کیلئے وہاں پر اقامت اختیار کریں اور اس درمیان دو عظیم شخصیتوں " آیت اللہ شاہ آبادی اور آیت اللہ رفیعی قزوینی کا نام لیا جاسکتا ہے۔
حضرت امام خمینی(رح) نے پورے پانچ برس آیت اللہ شاہ آبادی سے عرفان اور آیت اللہ رفیعی سے فلسفہ کی تعلیم حاصل کی لیکن ان افراد کے درمیان مرحوم شاہ آبادی سے زیادہ متاثر تهے۔
آپ عرفانی اور فلسفی مسائل میں استاد مسلم تهے اور مسائل الہیات میں تبحر رکهتے تهے۔ اس فن میں آپ کا ممتاز اثر آپ کے نبوغ کا پتہ دیتا ہے۔ "مصباح الہدایۃ فی الولایۃ والخلافۃ" اسماء وصفات کے حوالے سے ایک عرفانی بحث ہے۔
امام خمینی(رح) کے اخلاقی پہلو
آیت اللہ حائری کی رحلت کے بعد آپ نے جمعرات جمعہ کی عصر کو اخلاقی بحث کا آغاز کیا جو حکام وقت کے آنکه میں ایک خار تهی۔ اس وجہ سے کہ ان ایام میں کلاس درس کے علاوہ تمام اجتماعات پر پابندی تهی لہذا یہ کلاس اور اجتماع پر روک نہیں لگا سکتے تهے۔
امام اس درس میں سبق آموز اخلاقی نکات کے ضمن میں عرفانی اور سیاسی مسائل بهی بیان کرتے تهے اور کبهی حکومت کی مزاحمت اور مخالفت کی وجہ سے محل درس کو مدرسی فیضیہ سے مدرس ملا صادق میں منتقل کردیتے تهے۔
آپ نے انهیں شرائط میں ایک قیمتی کتاب لکهی جس کو " الاربعین" سے موسوم کیا۔
اس درس اخلاق کی ایک نشست اس قدر انسان کو دنیا اور اس کی زرق وبرق سے لاتعلق کردیتی تهی کہ انسان صرف اور صرف معنویات کو اہمیت دیتا تها۔
امام خمینی(رہ) اخلاقی مسائل کے اتنی شدت سے پابند تهے کہ اگر مجلس میں کوئی ایسی بات کہہ دیتا تها جس سے مسلمانوں کی اہانت کی بو آتی تهی تو امام کے غم وغصہ کا اس کو سامنا کرنا پڑتا تها اور امام سلسلہ کلام کو روک دیتے تهے۔
امام خمینی(رح) کے فقاہت اور اجتہادی پہلو
حضرت امام(رہ) نے گیارہ برس موسس حوزہ کے درس فقہ واصول سے استفادہ کیا اور ان کی رحلت کے بعد دورہ سطوح عالی کی تدریس میں مشغول ہوئے اور جس وقت آیت اللہ بروجردی سنہ 1346 هـ،شمسی میں قم تشریف لائے تو جن شخصیات نے آپ کے درس میں خاص سرگرمی دکهائی ان میں سے ایک آپ(رح) تهے۔
آپ نے مرحوم بروجردی کے درس میں سنہ 1364هـ،ق سے 1370هـ،ق تک شرکت کی اور نتیجے میں دونوں استاد کی روش کے امتیازات کو آپس میں ملا کر خود فقہ واصول میں صاحب روش قرار پائے اور دونوں روش کو مخلوط کر کے ایک نئی بنیاد رکهی اور 1364هـ،ق کے آغاز سے روحانیوں کی ایک جماعت کی درخواست پر درس خارج اصول کا آغاز کیا۔ آپ کے دروس آپ کے نہائی نظریات کے ساته تین جلدوں میں "تہذیب الاصول" کے نام سے شائع ہوئے اور اس وقت خارج اصول کے مدرسین کیلئے مورد استفادہ ہیں۔
جب حکومت وقت نے آپ کو سنہ 1964ء میں ترکیہ جلاوطن کیا وہاں پر فیصلہ کیا کہ " وسیلہ" کو پهر سے لکهیں اور اس کتاب مین ضروری مسائل کا اضافہ کریں جو فقاہت میں آپ کے تبحر علمی کا پتہ دیتا ہے۔ امام نے اس کام کو مکمل کیا اور اس کو "تحریر الوسیلہ" کے نام سے شائع کیا۔
امام خمینی(رح) کے عبادی پہلو
امام(رہ) ابتدائی جوانی ہی سے ہر طرح کی ریاکاری کے مخالف تهے اور باوجودی کہ امام درس میں دوسرے طلاب کی طرح تحصیل میں مشغول رہتے تهے اکثر جمعرات اور جمعہ کو قم سے باہر تفریح کیلئے جاتے تهے اور ایسی مجلسوں سے بہرہ مند ہوتے تهے لیکن تاریکی شب میں پرہیزگارون کی طرح معبود حقیقی سے راز ونیاز میں مشغول رہتے تهے اور ابتدائے جوانی اور 27 برس کی عمر سے مرتے دم تک نماز شب کبهی ترک نہیں کی یہاں تک کہ جس رات پیرس سے تہران واپس آ رہے تهے نماز شب ہوائی جہاز مین ادا کی!!
آپ کو دعاؤں کے درمیان "صحیفہ سجادیہ(ع)" اور مناجاتوں کے درمیان "مناجات شعبانیہ" سے بہت زیادہ لگاؤ تها اور آپ کو زیارتوں میں "زیارت جامعہ" سے بہت زیادہ عشق تها اور اہل بیت علیهم السلام کے تمام آستانوں میں اس کے پڑهنے کے پابند تهے۔
امام خمینی(رح) کے ادبی پہلو
آپ(رح) روز اول سے ایک باذوق انسان تهے کہ لکهنے سے آپ کا ایک خاص تعلق تها اور آپ خط نستعلیق کی دولت سے بہرہ مند تهے۔
آپ(رہ) کو شعر وشاعری سے بهی وافر حصہ ملا تها اور اس ذوق کو صرف خدمت اہل بیت(ع) میں صرف کرتے تهے۔ امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر آپ کا "بہاریہ قصیدہ" آیت اللہ حائری کے زمانے میں حوزہ علمیہ قم کی ادبی اور ولائی محفلوں کی زینت تها۔ آپ کا مجموعہ اشعار "دیوان امام" کی شکل میں (اردو منظوم ترجمہ بهی) زیور طبع سے آراستہ منظر عام پر دستیاب ہے۔
وسلام اللہ علیہ یوم ولد ویوم کان حیــا ویوم مات
آیت اللہ جعفر سبحانی کی یادداشت سے اقتباس
والسلام