لبنان کے سکیورٹی ذرائع کے مطابق بیروت کے جنوب میں واقع "ضاحیہ" کے شیعہ نشین محلہ "برج البراجنہ" کے علاقے میں دو خودکش حملوں کے نتیجے میں اب تک 43 افراد شہید اور 239 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کو بیروت کے بہمن اور الساحل ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ العربیہ نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں خودکش دھماکے حزب اللہ کا گڑھ سمجھنے والے علاقے میں ہوئے ہیں۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں متعدد دھماکوں اور فائرنگ کے پے در پے واقعات میں ہلاکتیں 160 سے تجاوز کرگئی ہیں۔ فرانسیسی پولیس کا کہنا ہے کہ شہریوں کی بازیابی کے لئے کئے جانے والے ریسکیو آپریشن کے دوران بٹاکلان کنسرٹ ہال میں مسلح افراد نے فائرنگ کی، جس سے 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کی جوابی کارروائی میں 3 حملہ آور بھی ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب پیرس کے شمالی حصے میں قائم فٹبال اسٹیڈیم کے باہر ایک خودکش بمبار نے خود کو زور دار دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
تیسرا حملہ پیرس کے شمالی حصے میں قائم ایک ہوٹل کے قریب ہوا۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق گذشتہ کچھ ماہ میں داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے فرانس سے 500 سے زائد افراد نے شام اور عراق کا سفر کیا ہے، جبکہ حال ہی میں ان میں سے 250 افراد فرانس واپس لوٹے ہیں اور مزید 750 افراد داعش میں شمولیت کے خواہاں ہیں!!
دہشت گردی نے لبنان سے فرانس تک کا سفر طے کر لیا۔
شام کے سنی عالم دین بدرالدین حسون نے ماضی میں مغربی ممالک کو خبردار کیا تھا کہ (جس نوعیت کی نیابتی جنگ کے ذریعے دہشت گردی شام میں کروائی جارہی ہے) یہ برڈ فلو نامی موذی بیماری کی مانند ہے، جس کا وائرس ایک نہ ایک دن تم تک بھی پہنچے گا۔ پیرس میں دہشت گردی پر شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے شام اسی نوعیت کی دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو پیرس کی دہشت گردی مکافات عمل کا ایک نمونہ بھی قرار دی جاسکتی ہے۔
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے بیروت دھماکوں کی ذمے داری قبول کی اور اسی گروہ نے پیرس دھماکوں کو بھی اپنا کارنامہ قرار دیا!!
بیروت کا دھماکہ ہو یا پیرس میں حملے، ان دونوں سے پہلے صہیونی صدر بن یامین نیتن یاہو کی وائٹ ہاؤس میں صدر اوبامہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان ملاقاتوں میں جعلی ریاست اسرائیل کی سلامتی کو حاصل امریکی تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا اور صہیونی افواج کی جانب سے فلسطینی عوام کے قتل عام میں حالیہ شدت کو صہیونی حکومت کو حاصل دفاع کا حق کہہ کر پشت تھپکائی گئی تھی!! نیتن یاہو امریکی صدر کی خدمت میں یہ مطالبہ لے کر گئے تھے کہ شام کے علاقے جولان کے جس حصے پر اسرائیل کا قبضہ ہے، اسے امریکا اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلے۔ اس طرح فلسطینی مقاومتی تحریکوں اور لبنان کی حزب اللہ سمیت ایران کے حامی گروہوں کو کمزور کیا جاسکے گا اور یوں فلسطین پر قابض و مسلط نسل پرست جعلی ریاست کے تحفظ میں عالمی سطح پر آسانی پیدا ہوگی، یعنی سفارتی محاذ پر صہیونیوں کی مخالفت کم ہوجائے گی۔ امریکا نے فی الوقت یہ کہا کہ ایسا کرنے سے شام میں مصروف عمل امریکی اتحاد کے ایجنڈا پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
داعش کے خودکش دھماکے تو لبنان، شام اور یمن میں بھی ہوئے اور تاحال جاری ہیں، ان پر یہ نام نہاد عالمی برادری اور ذرائع ابلاغ کیوں خاموش رہتے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ پیرس میں خودکش حملوں کے بعد فرانس کی حکومت کی اسلام دشمن پالیسی تبدیل ہوگی یا نہیں؟
لبنان کے سیاسی نظام کو عادلانہ اور جمہوری بنایا جائے گا یا نہیں؟
داعش سمیت اسلام دشمن stay behind armies کا سلسلہ ختم ہوگا یا نہیں؟
دنیا میں عدالت کے قیام تک جنگ نے جاری رہنا ہے، خواہ وہ پرامن تحریک کی صورت میں ہو یا حملہ آور دشمن کے خلاف مسلح مقاومت کے ذریعے۔ اگر وہ نہیں سدھریں گے تو پھر مقاومت بھی ختم نہیں ہوگی۔ بال اب امریکا، برطانیہ اور فرانس کے کورٹ میں ہے، عرب و ترک اتحادی تو ویسے ہی ان کے ہاتھوں کا کھلونا ہیں۔
اگر امام خمینی کے فرمودات، سیاسی اور اجتماعی رفتار پر دقت کریں تو ان کی باتوں سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ ان کی نظر سے وحدت صرف ایک توصیۂ اخلاقی، ایک ثقافتی و اجتماعی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ بہت بڑے اور بہترین روش سیاسی جوامع اسلامی کی قدرت و طاقت کے لئے دشمن سے مقابلہ کے لئے یہی دلیل ہے کہ دشمنان جہان اسلام بھی سالوں سے ہے کہ جوامع اسلامی کے درمیان تفرقہ ایجاد کریں۔ دشمن اپنے اہداف پر کافی حد تک مسلط ہوچکا ہے۔ امام خمینی کے تصور وحدت پر نظر ڈالنے سے غالباً اسٹرٹیجک حکمت عملی کے تحت کیا جانے والا اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔