کتاب "فلسطین" امام خمینیؒ کی ان تاریخی تقاریر، پیغامات اور بیانات پر مشتمل ہے جن میں انہوں نے نہ صرف صہیونی ریاست کی حقیقت کو بے نقاب کیا، بلکہ امتِ مسلمہ کو اس کے خلاف قیام کا راستہ بھی دکھایا۔ امام خمینیؒ نے فلسطین کے مسئلے کو صرف عربوں یا فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام اور مظلوم انسانیت کا مسئلہ قرار دیا۔ ان کی نظر میں اسرائیل ایک ناجائز، جعلی اور غاصب ریاست ہے جو امریکہ اور استکباری قوتوں کے اشاروں پر عالمِ اسلام میں تفرقہ، ظلم اور بربادی کا سبب بنی ہے۔
کتاب "فلسطین" میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان ممالک کو صہیونی ریاست کے وجود کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی یا اقتصادی تعلق رکھنا چاہیے۔ امامؒ نے فرمایا تھا: "اسرائیل کا وجود عالمِ اسلام کے لیے ناسور ہے اور جب تک یہ ناسور باقی ہے، خطے میں امن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔"
یہی فکر آج اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی میں نظر آتی ہے۔ ایران ہمیشہ مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اور اسرائیل کی ہر قسم کی جارحیت اور مداخلت کے خلاف مزاحمت کرتا آیا ہے۔ جب حالیہ دنوں میں صہیونی ریاست نے ایران پر فوجی حملہ کیا، تو اس کے خلاف برصغیر میں عوامی غم و غصے کی شدید لہر اٹھی۔ پاکستان، ہندوستان، اور بنگلہ دیش کے شہروں میں احتجاجی مظاہرے، مذمتی بیانات، اور سوشل میڈیا پر امام خمینیؒ کے اقوال و نظریات کو بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا۔
یہ ردعمل درحقیقت امام خمینیؒ کی اسی بیدارکن فکر کا تسلسل ہے جو انہوں نے اپنی کتاب "فلسطین" کے ذریعے نسلوں کے دل و دماغ میں منتقل کی۔ کتاب میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان نہ صرف اسرائیل کے خلاف متحد ہوں بلکہ اپنے داخلی اختلافات کو ترک کر کے ایک اُمّت واحدہ کی صورت میں ظلم کے مقابلے میں کھڑے ہوں۔
برصغیر کے عوام، جن میں امام خمینیؒ کی فکر کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، آج بھی اس کتاب کو ایک راہنما دستاویز سمجھتے ہیں۔ نوجوان نسل، خاص طور پر طلبہ اور سیاسی کارکنان، "فلسطین" کو پڑھ کر اسرائیل کی حقیقت، امریکہ کی دوغلی پالیسی، اور اسلامی مزاحمت کی روح کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ کتاب "فلسطین" صرف ماضی کی دستاویز نہیں، بلکہ آج کے حالات میں بھی ایک زندہ اور متحرک پیغام رکھتی ہے — ظلم کے خلاف مزاحمت، وحدتِ اُمت، اور ایک آزاد فلسطین کی جدوجہد۔