اسلام کی ابتدائی دور میں جب مسلمان زندگی کا درس دین سے لیتے تھے ہر قسم کی نفسیاتی تکالیف سے پاک و پاکیزہ تھے اور اسلامی تعلیمات کے بدولت ، وہ بلند ہمتی،فطری پاکیزگی، خالص ایمان،عفت و حیا ، عدل و انصاف،حق اور حقیقت کے سامنے تواضع اور فروتنی و غیرہ جیسی اعلیٰ صفات صفات سے مالامال تھے ۔یہ مسلہ امر ہے کہ جب بھی کوئی قوم دین کی طرف رجوع کرتی ہے وہ ایسی ہی کیفیت س سے بہرہ مندسکتی ہے۔لیکن جوں جوں تاریخ گزرتی گئی یہ آگ ٹھنڈی پڑتی گئی اور دشمنوں کے غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے صدیوں تک اسلا م ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر نافذہونے سے رہ گیا ،اگر چہ بعض گروپ اسلام کو عملی طور پر نافذ کرنے اور ایک مکّمل طرز حیات کے طور پر انسانی زندگی پر اس ا حکامات کو لاگو کرنے کیلئے سعی کرتے رہے ۔
موجودہ دور میں امام خمینیؒ ان پروپیگنڈوں بھاپنتے ہوئے اورمسائل و مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوگئے او ر تحریر و تقریر اور اپنی دسترس میں موجود دیگر تشہیری ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے غلط پروپیگنڈوں کا نا کام بناتے اور یکے بعد دیگرے ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ آپؒ نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر ہونے والے پروپیگنڈوں کامقابلہ کیا ، تقیہ کو حرام اور دینی حقائق کو اجاگر کرنے کو واجب قرار دیتے ہوئے اپنے تاریخی اعلامیے میں فرمایا:ــــ’’تقیہ حرام ہیـ‘‘۔(صحیفہ امام، ج۱، ص ۱۷۸)
قائد انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے عظیم بانی حضرت امام خمینیؒ کافی حد تک خدا داد روحانی، سیاسی، فکری اور اخلاقی صلاحیتوں سے بہرہ مند تھے اسی لئے آپ ؒ نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کاندھوں پر محسوس کی جانے والی دینی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے عوام کے تمام طبقات کو میدان میں لایا جن کو یک جا کرنے کے لئے فضا بھی سازگار تھی، اس طرح آپ ؒ نہ صرف اس خاموشی کو توڑنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اسے مختلف عوامی طبقات کی پکار میں تبدیل کر کے قرآن کی اس دعوت کو عملی جامہ پہنایا: ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس بات کی دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے اور یاد رکھو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور تم اسی کی طرف محشور کر دئیے جاؤگے‘‘۔(سورہ انفال؍۲۴)
امام خمینیؒ نے نظریہ ولایت فقیہ کو پیش کرنے کے بعد اسے عملا نافذ کیا، اس طرح انہوں نے دنیا کی تمام اقوام کے سامنے ثابت کیا کہ دین زندگی کے لئے ضابطہ و قانون بن سکتا ہے اور دین کی پیروی کرنے کی صورت میں دوسرے سیاسی مکاتب فکر اور مروجہ نظریات کی ضرورت نہیں پڑتی اور احیائے دین کی کوئی معینہ حد بھی نہیں ہے اور دین انسان کی تمام جسمانی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔
انہوں نے شیخ مرتضیٰ انصاری ؒ کی کتاب مکاسب پر فری لیکچرز (درس خارج) کے دوران ولایت فقیہ پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے عقلی دلائل اور سنت معصومین ؑ کی روشنی میں اسلامی حکومت کے قیام کی ضرورت بیان کی۔ عقلی دلائل کے ضمن میں امام خمینیؒ نے فرمایا:
’’یہ مسلمہ امر ہے کہ ان احکام کا نفاذ جن کے تحت رسول اسلام ؐ کی حکومت قائم ہوئی تھی، آنحضور ؑ کے زمانے تک محدود نہیں ہیں ، بلکہ یہ آپ ؐ کی رحلت کے بعد بھی لاگو ہو سکتے ہیں ۔ قرآن کے (بیان شدہ) آیہ شریفہ کے مطابق احکام اسلام ایک خاص وقت اور مقام تک محدود نہیں ہیں ، بلکہ یہ رہتی دنیا تک باقی اور قابل نفاذ ہیں ۔ احکام اسلام صرف حضور ؐ کے زمانے کے لئے نہیں آئے ہیں کہ ا س کے بعد وہ متروک قرار دئیے جائیں یا اسلام کے فوجداری قوانین، مثلاً حدود اور قصاص کا نفاذ عمل میں نہ آئیں ، مختلف مالی محصول نہ لئے جائیں اور عالم اسلام اور مت مسلمہ کے دفاعی امور روک دئیے جائیں ۔ یہ جو کہتے ہیں کہ اسلامی قوانین نا قابل نفاذ اور ایک خاص وقت اور مقام تک محدود و منحصر ہیں وہ اسلام کی نظریاتی ضرورتوں کو منافی بات کرتے ہیں ۔ چونکہ احکام و قوانین کا نفاذ پیغمبر اکرم کے بعد تا ابد ضروری ہے اس لئے حکومت انتظامیہ اور ایسے اداروں کا قیام ضروری نظر آتا ہے جو لوگوں کے تمام معاملات اور سرگرمیوں کو قوانین کے نفاذ کے ذریعے ایک منصفانہ نظام کے تحت کنٹرول کریں ۔ چونکہ حکومت کے قیام اور منصفانہ نظام کے نفاذ کے بغیر افراط تفریط پیدا ہوگی اور معاشرتی بدعنوانیاں اور نظریاتی اور اخلاقی برائیاں جنم لیں گی۔
لہٰذا افراط تفریط اور بے لگامی کو روکنے اور معاشرے کو برائیوں سے بچانے کے لئے حکومت کی تشکیل اور ملک کے تمام روز مرہ حالات و واقعات کو نظم و نسق بخشنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔ شریعت اور عقل کی رو سے پیغمبر اکرم ؐ اور حضرت علی ؑ کے ادوار کی طرح بعد کے زمانوں میں بھی حکومت اور انتظامی ادارے ضروری ہیں ‘‘۔ (ولایت فقیہ و جہاد اکبر، ص ۲۵)
امام خمینیؒ نے کتاب خدا اور سنت معصومین ؑ کی بنیادوں پر اور عقلی ضرورت کے تحت ثابت کیا کہ اسلامی احکام و قوانین کو معطل نہیں رکھ سکتے اور کسی صورت میں ان کے نفاذ سے دامن تہی نہیں کیا جاسکتا اور غیبت امام زمانہ ؑ کے دور میں فقہا اور علمائے امت کو چاہئے کہ امام زمانہ ؑ کی نیابت کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائیں ۔