ظلم و ستم کا خاتمہ کرنے، ستمگروں کی سرکشی اور طغیانی کو روکنے اور حکومت اسلامی کی تشکیل اور اس کے ثبات اور تسلسل کے لئے دین مبین اسلام کی ایک راہ جہاد بھی ہے ۔ جہاد قوانین الٰہی کے دائرے میں ہے اور شرعی فریضہ کی طرح دینداروں کے لئے حق کی سر بلندی اور باطل اور طاغوتی طاقتوں سے مقابلہ و پیکار کرنے کے لئے وضع ہوا ہے ۔ امام خمینی ؒ کی پوری سیاسی اور اجتماعی زندگی میں آپ ؒ کا صحیح و سالم مسلم اصول رہا ہے ۔ اس طرح سے کہ آپ ؒ کی شخصیت انجام وظیفہ و تکلیف، رفتار و کردار، بجا اقدامات اور صحیح موقف سے تشکیل ہوئی ہے:
’’ ہماری ذمہ داری وظیفہ کی انجام دہی ہے ہم نتیجہ کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ‘‘(صحیفہ امام ؒ،ج، ۱۵، ص ۷۰)
امام خمینی ؒ کے توحیدی مکتب میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے اور خدا وند متعال کی اطاعت اور اس کے احکام وفرامین کا اجراء اور نفاذ ہے اور اس میدان میں شکست یا نابودی کا واہمہ نہیں ہے ۔ جہاد کے دونوں طرف فتح و ظفر ہے اور یہ کلام قرآن میں وہی ’’ احدی الحسنیین‘‘ ہے ۔
’’ قتل ہو جائیں یا قتل کریں، حق ہمارے ساتھ ہے ۔ اگر ہم قتل بھی ہوجائیں، حق کی راہ میں قتل ہوئے ہیں اور ہماری کامیابی ہے اور اگر قتل کریں تو بھی حق ہی کی راہ میں ہے اور کامیابی ہے ۔ (صحیفہ امام ؒ، ج ۴، ص ۱۵۲)
یہاں تک کہ اس جہاد الٰہی میں شرائط، جہاد کی نوعیت اور دشمن سے بر سر پیکار ہونے کی اہمیت کے پیش نظر، دشمن کی کثرت اور جنگی وسائل و آلات کی محدودیت بھی باطل کے خلاف قیام کرنے سے مانع نہیں ہے۔ ہر طرح سے اور ہر وسیلے سے حق کی صف میں مقاومت کرنی چاہئے اور اپنی پوری قوت کے ساتھ اکیلے اور تن تنہا بھی اس کا دفاع کرنا چاہئے کہ ہمیشہ ہدف ایک فرد، گروہ یا سلیقہ سے مقدس تر ہوتا ہے۔
’’ اگر خمینی یک و تنہا رہ جائے تو بھی اپنی راہ کو جو کفر و ظلم اور شرک وبت پرستی سے جنگ کی راہ ہے، آگے بڑھائے گا۔ ‘‘(صحیفہ امام ؒ، ج ۲۰، ص ۳۱۸)
نکتہ بھی توجہ کے قابل ہے کہ راہ حق میں جہاد کے مراحل اور مراتب ہے جس کا آغاز باطل سے بیزاری سے ہوتا ہے اور ظالم سے جدال و قتال اور جنگ تک جاری رہتا ہے :
’’ یہ جنگ ظلم سے اظہار نفرت سے کہ نہی عن المنکر کا ادنیٰ درجہ ہے، شروع ہوتی اور دشمن سے جدال وقتال تک جاری رہتی ہے؛ تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو جائے اور ایک عادلانہ اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آئے۔ ‘‘(صحیفہ امام ؒ، ج ۵، ص ۲۳۵)
بنابرایں یہ نکتہ توجہ کے قابل ہے کہ یہ جنگ دین محور ارکان سے محسوب ہوتی ہے اور امام خمینی (رہ) کی نظر میں مذہب تشیع کے خاص اصول میں سے ایک اصل ہے :
’’ شیعہ سے مخصوص اصول میں سے ایک اصل اور قانون، ظلم اور ظالم حکومتوں سے جنگ ہے اور مذہب شیعہ نے اپنے خون سے آزادی بشر کی ضمانت لی ہے ۔ تمام مذاہب میں، شیعہ جیسا کوئی مذہب نہیں ہے جو باطل کے خلاف قیام کرتا ہواور یہ شیعہ کی نمایاں خصوصیت ہے ۔ ‘‘(صحیفہ امام ؒ، ج ۱۴، ص ۵۲۴)
اور چونکہ راہ خدا میں جہاد ایک امتحان ہے جو خدا اپنے پاک اور صالح بندوں سے لیتا ہے، بنا بر ایں عبودیت و پرہیز گاری کو اسلحہ سے لیس اور آراستہ ہونا چاہئے تاکہ کفر و الحاد کی فتنہ انگیزی یا سازش کا شکار نہ ہو اور اپنے پوری وجود کے ساتھ اسلام کے بلند مقاصد کی خدمت کرتا رہے۔
جیسا کہ نفس سے جہاد، جس کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے، بیرونی شیاطین اور دشمنان اسلام سے جنگ کا قانون ہے، اسی وجہ سے امام خمینی ؒ جنگ کی مؤثر ترین راہ، تقویٰ اور دینداری کو جانتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اجنبی سے جنگ کا سب سے زیادہ مؤثر طریقہ، دین اور دنیا کے ہتھیار سے لیس ہونا ہے اور اس پناہ گاہ کو خالی کرنا اور ہتھیار ڈال دینے کی دعوت دینا، اسلام اور اسلامی حکومت سے غداری اور خیانت ہے۔‘‘ (صحیفہ امام ؒ، ج ۳، ص ۳۲۷)
بطور خلاصہ کہا جا سکتا ہے کہ راہ حق میں جہاد اور مجاہدہ یا وہی جہاد اکبر و اصغر کہ نفس اور اندرونی شیطان سے بھی جنگ ہے اور کفار اور دشمنان دین و ایمان سے بھی جنگ ہے، دینداری کے اصلی ارکان سے ہے۔ اور اس کو لازمی طور پر دائمی فریضہ کے عنوان سے تمام مسلمانوں کا نصب العین ہونا چاہئے اور راہ سعادت و نجات کا راز اسی بات میں مضمر ہے۔