حضرت امام خمینی(رہ) کے افکار و نظریات سے آگاہی حاصل کرنا جو اپنے زمانے میں اسلامی امت کے اتحاد کے سب سے بڑے منادی رہے ہیں اور اسی بنا پر انہوں نے ایران میں اسلامی الہی نظام کی بنیاد رکهی تهی اتحاد کا درد رکهنے والوں کے لۓ راہ گشا اور مشعل راہ ہے۔
انسان فطرتاً توحید کی طرف مائل ہوتا ہے اور پوری تاریخ میں دیکه لیں انسانی عقل نے جہاں خواہشات نفسانی اور اغراض شیطانی کا عمل دخل نہ تها، توحید کی اساس پر ہی عمل کیا ہے اور تنازعات، پراکندگی اور تفرقہ کو انسانی معاشرے کے مفادات کے خلاف اور گمراہی کا باعث قرار دیا ہے۔
تمام انبیاء الهی علیهم الصلواۃ والسلام کی دینی دعوت کی اساس توحید پر ہی تهی انہوں نے توحید ہی کے سہارے انسان کو شرک و کفر و الحاد سے پاک کرنے کی کوشش کی، توحید کا عقیدہ اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے۔
اسلام کے تمام مشرب خواہ فلسفی، عرفانی، اخلاقی، کلامی یا تربیتی ہوں، ان سب کی اساس توحید ہے اور وہ عالم هستی کی تمام موجودات کو ذات وحدہ لاشریک کی آیات سمجهتے ہیں۔ البتہ اہل تحقیق پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ انسانی معاشرے کے اتحاد کی خواہش، عقیدہ توحید کا ایک جلوہ ہے اور اس کے مقابل دهڑے بندی اور کثرت پسندی، مادہ پرستی و کفر کی خصوصیات ہیں۔
قرآن مجید میں امت واحدہ کو حقیقی معنی میں سیر الی اللہ کا زینہ قرار دیا گیا ہے، ارشاد رب العزت ہے ان هذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون
روز ازل سے حق و باطل کا اختلاف جس شکل میں یا جس سطح پر ہو، توحید اور شرک کی بنیادوں پر رہا ہے۔
حضرت امام خمینی(رح) فرماتے ہیں:"تفرقہ شیطان کی طرف سے ہے اور اتحاد و وحدت کلمہ رحمان کی طرف سے "
دنیا دیکه رہی ہے کہ وہ عالمی ادارے جن کے وجود میں آنے کا مقصد اور ان کا نعرہ قوموں اور حکومتوں کے درمیان اتحاد قائم کرنا اور اختلافات ختم کرانا ہے، اکثر موقعوں پر ناکام رہے ہیں بلکہ خود سامراج کے ہاتهوں استعمال ہو کر کشیدگی اور اختلافات کا سبب بنے ہیں، گذشتہ دہائیوں میں سیکڑوں تنظیموں اور حکومتوں نے آپس میں تعاون اور اتحاد قائم کرنے کے معاہدے کۓ ہیں جن کے بارے میں وسیع تشہیرات کی گئیں جن سے دنیا کے باشندوں میں امیدیں پیدا ہوگئیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور ناکام رہے۔
ایک زمانے سے اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد کی بات کی جا رہی ہے بہت سے اسلامی ملکوں میں سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں نے اتحاد کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرلیا اور حکومت چلا رہے ہیں۔ اس موضوع پر سیکڑوں کتابیں اور مضمون بهی لکهے جا چکے ہیں اور خطباء مقررین اور مصنفین و دانشور اتحاد کی اہمیت پر تاکید کرتے رہتے ہیں لیکن اس راہ میں کوئی عملی قدم نہیں اٹهایا گیا!! میرے خیال میں ان ناکامیوں کی وجہ ان بنیادی امور میں تلاش کرنی چاہیے کہ جن پر توجہ کۓ بغیر ساری کوششیں بدستور ناکام رہیں گی۔
میرے خیال میں ان اداروں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عقیدہ اتحاد اور فکری عقیدتی اصولی اور اخلاقی نظاموں کے درمیان موجود اٹوٹ بندهن کو واضح کریں، کیا ہم توحید کا عقیدہ رکهتے ہوئے خدائے واحد پر ایمان رکهتے ہوئے اور خدا کو قادر مطلق مان کر جب عمل کی نوبت آئے تو اس کے برخلاف عمل کریں اور خلق خدا کے حالات سے بے خبر رہیں؟
کیا ہم موحد رہتے ہوئے اصحاب تفرقہ کے گروہ میں شامل ہوسکتے ہیں؟
صدر اسلام میں جب توحید کی دلنشین آواز ان لوگوں کے کانوں میں پہنچتی تهی جو ظلم و شرک و بت پرستی سے تنگ آ چکے تهے تو جاہلی تعصبات، فخر اور احساس برتری اور قوم پرستی کے جذبات فوری ختم ہوجاتے ہیں اور اختلافات و تفرقہ کے تمام سبب یہاں تک کے سببی اور نسبی تعلقات بهی خدا وحدہ لاشریک پر ایمان اور نور عبودیت کے سامنے بے رنگ ہوجاتے تهے ان لوگوں نے ایسا باکمال معاشرہ تشکیل دیا تها کہ خدا نے انہیں خیر امت کا خطاب دیا۔ اس معاشرہ میں ایسا اتحاد و یکجهتی پائی جاتی تهی کہ سیاہ فام غلام قریش کی بااثر اور سر برآرودہ شخصیتوں کے برابر سمجها جاتا ہے بلکہ اپنے ایمان کی بنا پر ان سے آگے بهی نکل جاتا ہے۔ ان ہی لوگوں نے ایسی شاندار تہذیب و تمدن کی بنیاد رکهی کہ ایران اور روم کی سلطنتیں بهی اس کے مقابل نہ ٹهہر سکیں اور کچه ہی دنوں میں اس تهذیب و تمدن نے ساری دنیا کے دل جیت لۓ۔
والحمدللہ
تحریر : مرحوم حجت الاسلام والمسلمین سید احمد خمینی