امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے اہم اور بہتر اور لوگوں میں تاثیر کے لحاظ سے سب سے شریف ترین اور دقیق مصداق، مخصوصاً اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دینے والا علمائے دین اور مذہبی راہنماؤں میں سے ہو یہ ہے کہ امر بالمعروف کرنے والے نے اس معروف پر چاہے واجب ہو یا مستحب خود عمل کیا ہو اور منکر سے چاہے مکروہ ہی کیوں نہ ہو خود اجتناب کیا ہو اور انبیاء اور علماء کے اخلاق سے مزین اور سفہا اور اہل دنیا کے اخلاق سے اجتناب کرتا ہوتا کہ اپنے عمل، سلیقے اور اخلاق سے امر اور نہی کرے اور لوگ اس کی پیروی کریں ۔ لیکن اگر (نعوذباللہ) وہ اس کے برعکس ہو اور لوگ دیکھیں کہ وہ عالم دین جو انبیا کی خلافت اور اُمت کی قیادت کا دعویدار ہے اور خود اپنی باتوں پرعمل نہیں کرتا تو یہ بات لوگوں کے عقیدے کے کمزور ہونے اور گناہوں پر ان کی جرأت اور گذشتہ علمائے صالح کیلئے بدگمانی کا باعث بنے گی۔ لہذا علما اور مخصوصاً مذہبی قائدین پر واجب ہے کہ وہ تہمت کے مقام سے بچیں اور ان میں سے سب سے اہم ظالم اور جابر حکمرانوں کا تقرب حاصل کرنا ہے اور اُمت پر بھی واجب ہے کہ اگر کوئی ایسا عالم دیکھے تو اگر احتمال ہو تو اس کے عمل کو صحیح فرض کریں وگرنہ اس سے دوری اختیار کر لیں ، کیونکہ وہ عالم نہیں ہے، بلکہ اس نے فقط علما کا لباس پہن رکھا ہے اور علما کے بھیس میں شیطان ہے۔ ہم خدا کے حضور اس قسم کے افراد سے اور ان کے شر سے اسلام کو پہنچنے والے نقصان سے پناہ مانگتے ہیں ۔
(تحریر الوسیلہ، ج ۱، ص ۴۴۲)